(٢١١٤) وقال ابویوسف یثبت النسب منہ الی سنتین) ١ لانہا معتدة یحتمل ان تکون حاملاولم تقر بانقضاء العدة فاشبہت الکبیرة
ہی اس کی عدت ختم ہو جائے گی ۔ اس لئے دو صورتیں فرض کی جا سکتی ہیں ]١[ طلاق سے پہلے وطی سے حمل ٹھہرا اور نو مہینے کے اندر اندر بچہ دیا ، اس لئے شوہر کا ہو گا ۔ ]٢[ دوسری صورت یہ ہے کہ طلاق سے پہلے حمل نہیں ٹھہرا ، بلکہ طلاق کے بعد تین مہینے عدت کے درمیان وطی بالشبہ ہوئی اور اس سے حمل ٹھہرا ، اور حمل کی کم سے کم مدت چھ مہینے میں بچہ دیا تب نسب ثابت ہوگا ۔ ]٣[ اور اگر نو مہینے کے بعد بچہ ہوا تو یہ بچہ تین ماہ عدت گزرنے کے بعد پیٹ میں آیا ہے ، اور عدت گزرنے کے بعد شوہر کے لئے وطی کرنا حرام ہے اس لئے یہ شوہر کا نہیں ہے ، اس لئے اس سے نسب ثابت نہیں ہو گا ۔
اصول :(١)عدت کے اندر جو بچہ پیدا ہو گا وہ شوہر کا ہو گا ، کیونکہ عورت ابھی بھی من وجہ اس کی بیوی ہے ۔ (٢)امام ابو حنیفہ کا اصول یہ ہے کہ عدت گزرنے کے بعد حمل کی اقل مدت چھ ماہ کے اندر بچہ دے تو شوہر کا ہو گا ، ورنہ نہیں ۔
وجہ : اس اثر سے استدلال کیا جا سکتا ہے ۔عن عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی امیة ان امرأة ھلک عنھا زوجھا فاعتدت أربعة أشھر و عشرا ثم تزوجت حین حلت فمکثت عند زوجھا أربعة اشھر و نصف ثم ولدت ولدا تاما فجاء زوجھا عمر بن الخطاب فذکر ذالک فدعا عمر نسوة من نساء الجاھلیة قدماء فسألھن عن ذالک فقالت امراة منھن انا اخبرک عن ھذہ المرأة ھلک زوجھا حین حملت فاھریقت الدماء فحش ولدھا فی بطنھا فلما أصابھا زوجھا الذی نکحت و اصاب الولد الماء تحرک الولد فی بطنھا و کبر فصدقھا عمر بن الخطاب و فرق بینھما و قال عمر اما انہ لم یبلغنی عنکما الا خیر و ألحق الولد بالاول ۔ (سنن بیہقی ، باب الرجل یتزوج المرأة بولد لاقل من ستة اشھر یوم النکاح ، ج سابع ، ص ٧٣٠، نمبر ١٥٥٥٩) اس اثر میں ہے کہ عدت گزرنے کے بعد چھ مہینے سے کم میں بچہ دے تو وہ بچہ شوہر کا ہو گا۔
اصول : امام ابو یوسف کا اصول یہ ہے کہ عدت گزرنے کے بعد حمل کی اکثر مدت دو سال کے اندر بچہ دے تو شوہر کا ہو گا ، ورنہ نہیں ۔
ترجمہ: (٢١١٤) امام ابو یوسف نے فرمایا کہ دو سال تک اس کا نسب ثابت ہو گا ۔
ترجمہ: ١ اس لئے کہ وہ ایسی عدت گزارنے والی ہے کہ احتمال رکھتا ہے کہ وہ حاملہ ہو ، اور عدت گزرنے کا اقرار نہیں کر رہی ہے اس لئے بالغہ کے مشابہ ہو گئی ۔
تشریح: امام ابو یوسف نے فر مایا کہ صغیرہ طلاق بائنہ کے بعد دو سال تک بھی بچہ دے گی تو وہ شوہر کا شمار کیا جائے گا ، اس لئے کہ