Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 5

385 - 508
العدة (٢١١٣)فان کانت المتبوتة صغیرة یجامع مثلہا فجاء ت بولدلتسعة اشہر لم یلزمہ حتی تاتی بہ لاقل من تسعة اشہر عندابی حنیفة ومحمد)

ہو ۔
تشریح:  جب شوہر نے دعوی کیا کہ یہ بچہ میرا ہے تو اس سے نسب ثابت کیا جائے گا ، اور نسب ثابت کرنے کی ایک شرعی تو جیہ یہ ہو سکتی ہے کہ عدت گزارتے وقت حلال سمجھ کر اس سے وطی کر لی جس سے یہ حمل ٹھہر گیا ، اس لئے وطی بالشبہ سے نسب ثابت کیا جائے گا ۔ کیونکہ عدت ختم ہونے تک من وجہ اس کی بیوی ہے ۔ 
ترجمہ: ( ٢١١٣)  ایسی چھوٹی بچی جس سے جماع کیا جا سکتا ہو اس کو طلاق بائنہ دی پس اس نے نو مہینے میں بچہ دیا تو شوہر کو لازم نہیں ہو گا ، یہاں تک کہ نو مہینے سے کم میں بچہ دے امام ابو حنیفہ  اور امام محمد  کے نزدیک ۔
تشریح :  یہاں پانچ باتیں یاد رکھیں تب مسئلہ سمجھ میں آئے گا  ]١[یہ مسئلہ ایسی چھوٹی بچی کے بارے میں فرض کیا گیا ہے جو قریب البلوغ ہو اور اس سے وطی کی جا سکتی ہو ]٢[  اور دوسری بات یہ فرض کی گئی ہے کہ اس سے دخول کر چکا ہے ۔ اس لئے بہت ممکن ہے کہ نکاح کی حالت ہی میں اس کو حمل ٹھہر چکا ہے ۔]٣[  تیسری بات یہ ہے کہ یہ صغیرہ ہے اس کو حیض نہیں آتا ہے اس لئے اس کی عدت تین ماہ متعین ہے ۔ طلاق کے بعد تین ماہ گزرتے ہی اس کی عدت گزر جائے گی، چاہے عدت گزرنے کا اقرار کرے یا نہ کرے ۔ ]٤[ یہاں اصول یہ ہے جو آگے آرہا ہے کہ کوئی بھی عورت عدت گزر جانے کا اقرار کر لے اور اس اقرار کے چھ مہینے کے اندر بچہ دے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ عدت گزرنے کے اقرار کرتے وقت عورت حاملہ تھی تب ہی تو چھ مہینے سے کم میں بچہ دیا ، اس لئے عورت کا اقرار کرنا غلط تھا ، اور جب عدت نہیں گزری اور بچہ دیا تو یہ بچہ شوہر کا ہو گا ۔ اسی پر قیاس کرتے ہوئے شریعت کی متعین کردہ عدت تین مہینے گزر گئے ، اور اس کے چھ مہینے کے اندر بچہ دیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ عدت کے اندر عورت حاملہ تھی ، اس لئے گویا کہ عدت گزری ہی نہیں اس لئے یہ بچہ شوہر کا ہو گا ۔ اور اگر چھ مہینے کے بعد بچہ دیا تو کوئی ضروری نہیں ہے کہ عورت عدت کے اندر حاملہ تھی اس لئے یہ بچہ شوہر کا نہیں ہو گا ۔اسی اصول پر یہ مسئلہ متفرع ہے ۔]٥[ امام ابو حنیفہ اور امام محمد  کا رجحان یہ ہے کہ صغیرہ کو حیض نہیں آتا ہے اس لئے شوہر کا حمل ٹھہرنا نا ممکن سا ہے اس لئے چھ ماہ کے اندر بچہ ہو تو شوہر کا ہوگا ورنہ نہیں۔ اور امام ابو یوسف  کا رجحان یہ ہے کہ یہ شوہر کی فراش ہے ، اور قریب البلوغ ہے اس لئے حمل ٹھہرنے کا کافی امکان ہے اس لئے اس کا حکم بالغ عورت کی طرح ہو گا۔
صورت مسئلہ یہ ہے کہ مراہقہ صغیرہ کو طلاق بائنہ دی توامام ابو حنیفہ  اور امام محمد  کے نزدیک نو مہینے کی اندر بچہ دیا تو شوہر کا ہو گا ، اور نو مہینے کے بعد بچہ دیا تو شوہر کا نہیں ہو گا ۔ 
  وجہ : (١)  اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صغیرہ ہے اس کو حیض نہیں آتا ہے اس لئے اس کی عدت تین ماہ متعین ہے ، تین ماہ پورے ہوتے 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بابُ تفویض الطلاق 8 1
3 فصل فی الاختیار 8 2
4 تفویض طلاق کا بیان 8 3
5 فصل فے الامر بالید 22 3
6 فصل فی المشیۃ 35 3
7 باب الایمان فی الطلاق 61 1
9 فصل فی الاستثناء 89 7
10 باب طلاق المریض 94 1
11 باب الرجعة 114 1
12 فصل فیما تحل بہ المطلقة 142 11
14 باب الایلاء 156 1
15 باب الخلع 177 1
16 باب الظہار 207 1
17 فصل فی الکفارة 220 16
18 با ب اللعان 251 1
19 باب العنین وغیرہ 280 1
20 اسباب فسخ نکاح 295 1
21 فسخ نکاح کے اسباب 295 20
22 باب العدة 324 1
23 فصل فی الحداد 357 22
24 سوگ منانے کا بیان 357 23
25 باب ثبوت النسب 379 1
26 ثبوت نسب کا بیان 379 25
27 باب حضانة الولد ومن احق بہ 408 1
28 حضانت کا بیان 408 27
29 فصل بچے کو باہر لیجانے کے بیان میں 424 27
30 باب النفقة 428 1
31 فصل فی نفقة الزوجة علی الغائب 455 30
32 فصل کس طرح کا گھر ہو 455 30
33 فصل فی نفقة المطلقة 467 30
34 فصل مطلقہ عورت کا نفقہ 467 30
35 فصل فی نفقة الاولاد الصغار 475 30
36 فصل چھوٹے بچوں کا نفقہ 475 30
37 فصل فی من یجب النفقة و من لا یجب 483 30
38 فصل والدین کا نفقہ 483 30
40 فصل فی نفقة المملوک 504 30
Flag Counter