العدة (٢١١٣)فان کانت المتبوتة صغیرة یجامع مثلہا فجاء ت بولدلتسعة اشہر لم یلزمہ حتی تاتی بہ لاقل من تسعة اشہر عندابی حنیفة ومحمد)
ہو ۔
تشریح: جب شوہر نے دعوی کیا کہ یہ بچہ میرا ہے تو اس سے نسب ثابت کیا جائے گا ، اور نسب ثابت کرنے کی ایک شرعی تو جیہ یہ ہو سکتی ہے کہ عدت گزارتے وقت حلال سمجھ کر اس سے وطی کر لی جس سے یہ حمل ٹھہر گیا ، اس لئے وطی بالشبہ سے نسب ثابت کیا جائے گا ۔ کیونکہ عدت ختم ہونے تک من وجہ اس کی بیوی ہے ۔
ترجمہ: ( ٢١١٣) ایسی چھوٹی بچی جس سے جماع کیا جا سکتا ہو اس کو طلاق بائنہ دی پس اس نے نو مہینے میں بچہ دیا تو شوہر کو لازم نہیں ہو گا ، یہاں تک کہ نو مہینے سے کم میں بچہ دے امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے نزدیک ۔
تشریح : یہاں پانچ باتیں یاد رکھیں تب مسئلہ سمجھ میں آئے گا ]١[یہ مسئلہ ایسی چھوٹی بچی کے بارے میں فرض کیا گیا ہے جو قریب البلوغ ہو اور اس سے وطی کی جا سکتی ہو ]٢[ اور دوسری بات یہ فرض کی گئی ہے کہ اس سے دخول کر چکا ہے ۔ اس لئے بہت ممکن ہے کہ نکاح کی حالت ہی میں اس کو حمل ٹھہر چکا ہے ۔]٣[ تیسری بات یہ ہے کہ یہ صغیرہ ہے اس کو حیض نہیں آتا ہے اس لئے اس کی عدت تین ماہ متعین ہے ۔ طلاق کے بعد تین ماہ گزرتے ہی اس کی عدت گزر جائے گی، چاہے عدت گزرنے کا اقرار کرے یا نہ کرے ۔ ]٤[ یہاں اصول یہ ہے جو آگے آرہا ہے کہ کوئی بھی عورت عدت گزر جانے کا اقرار کر لے اور اس اقرار کے چھ مہینے کے اندر بچہ دے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ عدت گزرنے کے اقرار کرتے وقت عورت حاملہ تھی تب ہی تو چھ مہینے سے کم میں بچہ دیا ، اس لئے عورت کا اقرار کرنا غلط تھا ، اور جب عدت نہیں گزری اور بچہ دیا تو یہ بچہ شوہر کا ہو گا ۔ اسی پر قیاس کرتے ہوئے شریعت کی متعین کردہ عدت تین مہینے گزر گئے ، اور اس کے چھ مہینے کے اندر بچہ دیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ عدت کے اندر عورت حاملہ تھی ، اس لئے گویا کہ عدت گزری ہی نہیں اس لئے یہ بچہ شوہر کا ہو گا ۔ اور اگر چھ مہینے کے بعد بچہ دیا تو کوئی ضروری نہیں ہے کہ عورت عدت کے اندر حاملہ تھی اس لئے یہ بچہ شوہر کا نہیں ہو گا ۔اسی اصول پر یہ مسئلہ متفرع ہے ۔]٥[ امام ابو حنیفہ اور امام محمد کا رجحان یہ ہے کہ صغیرہ کو حیض نہیں آتا ہے اس لئے شوہر کا حمل ٹھہرنا نا ممکن سا ہے اس لئے چھ ماہ کے اندر بچہ ہو تو شوہر کا ہوگا ورنہ نہیں۔ اور امام ابو یوسف کا رجحان یہ ہے کہ یہ شوہر کی فراش ہے ، اور قریب البلوغ ہے اس لئے حمل ٹھہرنے کا کافی امکان ہے اس لئے اس کا حکم بالغ عورت کی طرح ہو گا۔
صورت مسئلہ یہ ہے کہ مراہقہ صغیرہ کو طلاق بائنہ دی توامام ابو حنیفہ اور امام محمد کے نزدیک نو مہینے کی اندر بچہ دیا تو شوہر کا ہو گا ، اور نو مہینے کے بعد بچہ دیا تو شوہر کا نہیں ہو گا ۔
وجہ : (١) اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صغیرہ ہے اس کو حیض نہیں آتا ہے اس لئے اس کی عدت تین ماہ متعین ہے ، تین ماہ پورے ہوتے