(٢١٠٨) قال ویثبت نسب ولد المطلقة الرجعیة اذاجاء ت بہ لسنتین او اکثر مالم تقربانقضاء عدتہا) ١ لاحتمال العلوق فی حالة العدة لجواز انہا تکون ممتدة الطہر (٢١٠٩)وان جاء ت بہ لاقل من سنتین بانت من زوجہا بانقضاء العدة)
ترجمہ: (٢١٠٨) ثابت ہوگا مطلقہ رجعیہ کے بچے کا نسب جب وہ جنے دو سال یا زیادہ میں جب تک کہ وہ عدت گزرنے کا اقرار نہ کرے ۔
ترجمہ : ١ عدت کی حالت میں حمل ٹھرنے کے احتمال کی وجہ سے کیونکہ جائز ہے کہ عورت لنبی طہر والی ہو۔
تشریح : بیوی کو طلاق رجعی دی۔وہ عدت گزار رہی تھی،دو سال یا اس سے زیادہ تک عدت گزرنے کا اقرار نہیں کیا۔اس درمیان اس نے بچہ دیا تو اس بچے کا نسب باپ سے ثابت ہوگا۔اور چونکہ عدت کے درمیان وطی کی اس لئے رجعت ثابت ہو جائے گی ۔
وجہ: (١) یہاں چار باتیں یاد رکھیں ]١[ ایک تو یہ کہ مطلقہ رجعیہ سے عدت کے درمیان وطی کر سکتا ہے ۔ ]٢[ اور دوسرا قاعدہ یہ ہے کہ جیسے ہی وطی کرے گا اس سے رجعت ہو جائے گی ]٣[ اور تیسری بات یہ ہے کہ حمل کی مدت زیادہ سے زیادہ دو سال ہے ، اس سے زیادہ نہیں ]٤[ اور چوتھی بات یہ ہے کہ بعض عورت کو کئی کئی سال کے بعد حیض آتا ہے ، اس کو ممتد الطہر کہتے ہیں۔ ۔ اس عورت نے دو سال کے بعد بچہ دیا ہے اس لئے یہ یقینی ہے کہ طلاق کے بعد عدت کے درمیان وطی کی ہے تب ہی تو دو سال کے بعد بچہ پیدا ہوا، اور مطلقہ رجعیہ سے عدت کے درمیان وطی کی تو اس سے رجعت ثابت ہو جائے گی ، اور عورت چونکہ ابھی تک فراش ہے اس لئے شوہر سے نسب ثابت ہو گا ۔ (٢) مدت حمل زیادہ سے زیادہ دو سال ہے اس کی دلیل یہ اثر ہے ۔ عن عائشة قالت ما تزید المرأة فی الحمل علی سنتین ولا قدر ما یتحول ظل عود المغزل ۔ (سنن للبیہقی ، باب ماجاء فی اکثر الحمل، ج سابع،ص ٧٢٨، نمبر ١٥٥٥٢) اس اثر سے معلوم ہوا کہ حمل کی مدت زیادہ سے زیادہ دوسال ہے۔
ترجمہ: (٢١٠٩) اگر دو سال سے کم میں جنا تو شوہر سے بائنہ ہو جائے گی۔عدت ختم ہونے کی وجہ سے ۔
تشریح: طلاق کے بعد دو سال سے کم میں بچہ جنا تو اس بچے کا نسب باپ سے ثابت ہوگا اور عورت کی عدت گزر جائے گی جس کی وجہ سے بائنہ ہو جائے گی۔
وجہ : (١)بچہ زیادہ سے زیادہ دو سال تک پیٹ میں رہ سکتا ہے اس لئے اگر دو سال کے اندر بچہ جنا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ عورت طلاق کے وقت حاملہ تھی، اس لئے وضع حمل اس کی عدت تھی ، اس لئے وضع حمل سے اس کی عدت گزر گئی ، اور چونکہ طلاق سے پہلے علوق ہوا ہے اس لئے بچے کا نسب باپ سے ثابت ہو گا ۔