١ واما النسب فلانہا فراشہ لانہا لماجاء ت بالولد لستة اشہر من وقت النکاح فقد جاء ت بہ لا قل منہا من وقت الطلاق فکان العلوق قبلہ فی حالةالنکاح ٢ والتصور ثابت بان تزوجہا وہویخالطہا فوافق الانزال النکاح والنسب یحتاط فی اثباتہ واماالمہر فلانہ لما ثبت النسب منہ جعل واطیا حکما فتاکدالمہر بہ
حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے۔
ترجمہ: ١ بہر حال نسب ثابت ہونا تو اس لئے کہ عورت اس کی فراش ہے ، اسلئے کہ جب نکاح کے وقت سے چھ مہینے میں بچہ دیا تو طلاق کے وقت سے حمل کی کم مدت میں بچہ جنا، اس لئے علوق طلاق سے پہلے نکاح کی حالت میں ہوا ۔
تشریح: یہ دلیل عقلی ہے کہ نسب اس لئے ثابت کیا جائے گا کہ یہ عورت علوق کے وقت شوہر کی فراش ہے ، کیونکہ جب نکاح کے وقت سے چھ مہینے میں بچہ جنا تو حمل کی کم سے کم مدت میں بچہ جنا تو معلوم ہوا کہ طلاق واقع ہونے سے پہلے نکاح کی حالت میںبچے کا حمل ٹھہرا ہے ، اس لئے بچے کا نسب شوہر سے ثابت ہو گا ۔
لغت : علوق : حمل ٹھہرنا ۔ فراش : بیوی کا نکاح میں ہونا ۔یخالط : خلط ملط کرنا ، یہاں مراد ہے دخول کرنے کے قریب ہونا ۔
ترجمہ: ٢ اور نکاح میں حمل کا تصور ثابت ہے ، اس طرح کہ مرد نے اس عورت سے وطی کرنے کی حالت میں نکاح کیا ، اور نکاح ہو جانے پر انزال ہو کر نطفہ ٹھہر گیا ، اور نسب ثابت کرنے میں احتیاط کی جاتی ہے ۔
تشریح: نکاح کی حالت میں حمل ٹھہرنے کا امکان اس طرح ہے کہ وطی کرنے کے قریب تھا اور پردے میں دو گواہوں کے سامنے نکاح کیا ، اور قبلتُ کرتے ہی منی ٹپکا دی جس سے حمل ٹھہر گیا ، تو حمل ٹھہرنا نکاح کی حالت میں ہے ، اس کے فورا بعد وعدے کے مطابق طلاق واقع ہوئی، اس لئے نسب ثابت ہو گا ۔ کیونکہ نسب ثابت کرنے میں احتیاط کیا جاتا ہے ، اور کوشش کی جاتی ہے کہ نسب ثابت ہو جائے تاکہ بچہ حرامی نہ رہ جائے جس سے زندگی بھر عار ہو ، پھر پرورش کا معاملہ کھڑا ہو، اور وراثت کا معاملہ کھڑا ہو ۔ اس لئے وطی کا دور کا بھی امکان ہو تو نسب ثابت کر دیا جائے گا ۔
ترجمہ: ٣ بہر حال پورا مہر تو اس لئے کہ جب اس سے نسب ثابت ہوا تو اس کو حکما وطی کرنے والا قرار دیا ، اس لئے مہر مؤکد ہو گیا۔
تشریح: پورا مہر شوہر پر اس لئے واجب ہو گا کہ جب اس سے نسب ثابت ہوا تو اس کو حکما وطی کرنے والا قرار دیا ، اور جب وطی کر لیا تو اس سے پورا مہر لازم ہو گا ۔