(٢١٠٧)ومن قال ان تزوجت فلانة فہی طالق فتزوجہا فولدت ولداًلستة اشہر من یوم تزوجہا فہو ابنہ وعلیہ المہر)
ترجمہ: (٢١٠٧) کسی شخص نے کہا ٫ اگر میں فلاں سے نکاح کروں تو اس کو طلاق ، پس اس سے نکاح کیا اور شادی کرنے کے دن سے چھ مہینے میں بچہ پیدا ہوا تو وہ اس کا بیٹا ہے ۔ اور اس پر پورا مہر ہے ۔
تشریح: اس مسئلے میں دو باتیں بتانا چاہتے ہیں ]١[ ایک تو یہ کہ وطی کا کچھ بھی امکان ہو تو اس میں وطی ثابت کرکے نسب ثابت کیا جائے گا ، چاہے عقلی اعتبار سے نا ممکن کیوں نہ ہو ۔ ]٢[ اور دوسری بات یہ بتاتے ہیں کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے ۔ صورت مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص نے کہا کہ اگر میں فلاں عورت سے نکاح کروں تو اس کو طلاق ہے ، اب نکاح کے چھ ماہ پر بچہ دیا تو اس بچے کا نسب باپ سے ثابت ہو گا ۔ باقی رہا کہ یہاں تو نکاح کرتے ہی طلاق واقع ہو جائے گی تو وطی کیسے کرے گا ، کیونکہ نکاح سے پہلے وطی کرنے سے زنا ہو گا ، اور اس سے بچے کا نسب ثابت نہیں ہو گا ، اور نکاح ہوتے ہی طلاق واقع ہو جائے گی اس لئے بیوی باقی نہیں رہی ، اب اس حال میں وطی کرے گا تو بھی زنا ہو گا اور٫ للعاھر الحجر ، حدیث کی وجہ سے نسب ثابت نہیں ہو گا تو بچہ ہونے کی شکل کیا ہو گی ۔ تو مصنف نے ایک بعید صورت یہ نکالی ہے کہ بالکل دخول کے قریب ہے ، اور دو گواہ پردے میں ہیں اور میاں بیوی نے نکاح کیا، اور قبلت ہوتے ہی شرمگاہ میں منی ٹپکا دی جس سے حمل ٹھہر گیا ، تو حمل ٹھہرنا نکاح کے وقت پایا گیا اس لئے نسب ثابت ہو جائے گا ۔
وجہ : (١) اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ یہ عورت شوہر کا فراش رہی ہے اس لئے بچے کا نسب باپ سے ثابت ہو گا ، اس حدیث میں اس کا ثبوت ہے ۔ عن عائشة ..... فقال ھو لک یا عبد ! الولد للفراش وللعاھر الحجر،و احتجبی منہ یا سودة بنت زمعة ۔ (مسلم شریف ، باب الولد للفراش وتوقی الشبہات، ص ٦٢٠ ،نمبر ١٤٥٧ ٣٦١٣ بخاری شریف ، باب للعاھر الحجر، ص ١١٧٤، نمبر ٦٨١٨ابو داؤد شریف ، باب الولد للفراش ،ص ٣١٧،نمبر ٢٢٧٣) اس حدیث میں ہے کہ جسکی بیوی ہو گی نسب اسی سے ثابت کیا جائے گا۔(٢) اثر میں ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہیں۔ان عمر اتی بامرأة قد ولدت لستة اشھر فھم برجمھا فبلغ ذلک علیا فقال لیس علیھا رجم فبلغ ذلک عمر فارسل الیہ فسألہ فقال والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعة وقال تعالی وحملہ وفصالہ ثلاثون شہرا،فستة اشھر حملہ وحولین تمام لاحد علیھا او قال لا رجم علیھا فخلی عنھا ثم ولدت۔ (سنن للبیہقی ، باب ماجاء فی اقل الحمل ج سابع، ص٧٢٧، نمبر ١٥٥٤٩) اس اثر میں ہے کہ قرآن کریم میں دودھ پلانے اور حمل کی مجموعی مدت تیس مہینے قرار دی ہے۔اور دوسری آیت میں دودھ پلانے کی مدت دو سال بتائی ہے جس کا حاصل یہ ہوا کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ رہ گئی ۔اس لئے