(٢١٠٢) ثم ان وقعت الفرقة بطلاق بائن اوثلٰث لابدمن سترة بینہما ثم لابأس) ١ لانہ معترف بالحرمة الاان یکون فاسقا یخاف علیہا منہ فحینئذ تخرج لانہ عذر ولاتخرج عما انتقلت الیہ
فزجرھا رجل ان تخرج فاتت النبی ۖ فقال بلی فجدی نخلک فانک عسی ان تصدقی او تفعلی معروفا۔ (مسلم شریف ، باب جواز خروج المعتدة البائن والمتوفی عنہا زوجہا فی النہار لحاجتہا ،ص ٤٨٦ ،نمبر ٣٧٢١١٤٨٣ ابو داؤد شریف ، باب فی المبتوتة تخرج بالنھار ،ص ٣٢٠ ،نمبر ٢٢٩٧) اس حدیث میں ہے کہ نفقہ حاصل کرنے کے لئے گھر سے نکل سکتی ہے ۔
]٨[ متوفی عنھا زوجھا عدت کے گھر میں رہ رہی ہو اس کے پاس نفقہ ہو لیکن پورا نفقہ نہ ہو تو پورا نفقہ کمانے کے لئے دن کے وقت گھ سے نکل سکتی ہے ۔ اس کے لئے ۔ اثر میں ہے ۔ عن ابن عمر قال المطلقة والمتوفی عنھا زوجھا تخرجان بالنھار ولا تبیتان لیلة تامة غیر بیوتھما۔ (سنن للبیہقی ، باب کیفیة سکنی المطلقة والمتوفی عنہا ،ج سابع ،ص٧١٧، نمبر ١٥٥١٤ مصنف ابن ابی شیبة، ١٦٩ ماقالوا این تعتد َ من قال فی بیتہا ،ج رابع، ص ١٥٨، نمبر١٨٨٣٠ ) اس اثر سے معلوم ہوا کہ رات کو گھر میں گزارے اور دن کو نکل سکتی ہے۔
ترجمہ: (٢١٠٢) پھر اگر فرقت طلاق بائن کی وجہ سے ہوئی ہو ، یا تین طلاق سے ہوئی ہو تو مرد اور عورت کے درمیان سترہ ضروری ہے ، پھر کوئی حرج نہیں ہے ۔
ترجمہ: ١ اس لئے کہ وہ حرمت کا معترف ہے ، مگر یہ کہ اگر شوہر فاسق ہو اور عورت پر حملے کا خوف ہو تو اس وقت عورت نکل جائے ، اس لئے کہ یہ عذر ہے ، اور جہاں وہ منتقل ہوئی ہے وہاں سے دوبارہ منتقل نہ ہو ۔
تشریح: اگر میاں بیوی کے درمیان طلاق بائنہ ہوئی ہو یا طلاق مغلظہ ہوئی ہو اب بغیر نکاح کے ساتھ رہنا ٹھیک نہیں ہے ، پردہ ضروری ہے ، اس لئے اس گھر میں عدت گزارتے وقت دونوں کے درمیان پردہ ضروری ہے ، اگر پردہ کر لیا تو اب کوئی حرج نہیں ہے ، کیونکہ دونوں حرمت کا معترف ہے ، اس لئے یقین یہ ہے کہ کوئی نا خوشگوار معاملہ پیش نہیں آئے گا ، لیکن اگر شوہر فاسق ہو تو اور کسی ناجائز تعلقات کا خوف ہو تو اس وقت خود عورت اس گھر سے نکل سکتی ہے کیونکہ نا جائز میں پھسنے کا عذر ہے ، لیکن عورت جہاں ایک مرتبہ منتقل ہو گئی تو اب بغیر کسی شدید عذر کے وہاں سے منتقل نہ ہو ، کیونکہ اب یہی گھر عدت گزارنے کے لئے متعین ہو گیا ۔
وجہ : (١) اس حدیث میں پردہ کے لئے نا بینا کے گھر میں عدت گزارنے کے لئے کہا۔و ان ابا حفص ابن المغیرة طلقھا آخر ثلاث تطلیقات فزعمت انھا جائت رسول اللہ ۖ فاستفتتہ فی خروجھا من بیتھا فأمرھا ان تنتقل الی ابن ام مکتوم الاعمی ۔( ابوداود شریف، باب فی نفقة المبتوتة ، ص ٣٣٢، نمبر ٢٢٨٩)