٥ واللفظ حقیقة فیہمااذ ہو من الاضداد کذا قال ابن السکیت ولاینتظمہا جملةً للاشتراک
٦ والحمل علی الحیض اولیٰ اماعملا بلفظ الجمع لانہ لوحمل علیٰ الاطہار والطلاق یوقع فی طہر لم یبق جمعاً
سے مراد طہر ہے ۔
وجہ: (١)اثر میں ہے۔عن عائشة قالت الاقراء الاطھار ۔ (سنن للبیہقی ، جماع ابواب عدة المدخول بہا ج سابع، ص ٦٨٢، نمبر ١٥٣٨٣ مصنف ابن ابی شیبة ،١٥٣ ماقالوا فی الاقراء ما ھی ؟ ج رابع، ص ١٤٨، نمبر ١٨٧٣٠) اس اثر میں ہے کہ قرء سے مراد طہر ہے۔(٢) اس حدیث میں بھی اس کا ثبوت ہے ۔عن عبد اللہ بن عمر انہ طلق امرأتہ و ھی حائض علی عہد رسول اللہ ۖ فسأل عمر بن الخطاب رسول اللہ ۖ عن ذالک فقال رسول اللہ ۖ: مرہ فلیراجعھا ، ثم لیمسکھا حتی تطھر ثم تحیض ثم تطہر ثم ان شاء طلق قبل ان تمس فتلک العدة التی أمر اللہ أن یطلق لھا النساء ۔ ( بخاری شریف ، باب قول اللہ تعالی : یآیھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن و أحصوا العدة ، ص ٩٣٨، نمبر ٥٢٥١) اس حدیث میں طہر کو عدت قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قرو سے مراد طہر ہے ۔
ترجمہ: ٥ اور لفظ قرؤ حقیقت ہے دونوں میں ، اس لئے کہ وہ اضداد میں سے ہے ایسا ہی حضرت ابن السکیت نے فر مایا اور وہ اشتراک کی وجہ سے ایک ساتھ دونوں کو شامل نہیں ہو سکتا ۔
تشریح: بہت بڑے لغوی حضرت ابن سکیت نے فر مایا ہے ۔ کہ لفظ قرؤ حیض کے معنی میں بھی حقیقت ہے اور طہر کے معنی میں بھی حقیقت ہے ، اس لئے یہ لفظ دو معنوں میں مشترک ہے ۔اور دونوں معانی ایک دوسرے کی ضد بھی ہے ، کیوں کہ جس وقت قرو کا معنی حیض کا لیں گے تو اسی وقت طہر کا معنی نہیں لے سکتے ، اور طہر کا معنی لیں گے تو حیض کا معنی نہیں لے سکتے۔ اس لئے دو معنی میں سے ایک ہی معنی لیا جا سکتا ہے ۔
ترجمہ: ٦ اور حیض پر حمل کرنا زیادہ بہتر ہے، جمع کے لفظ پر عمل کرتے ہوئے ۔، اس لئے کہ اگر حمل کریں طہر پر اور طلاق واقع ہو گی طہر میں تو جمع کا لفظ باقی نہیں رہے گا ۔
تشریح:یہ دلیل عقلی ہے کہ قرؤ کو حیض پر حمل کرنا زیادہ بہتر ہے ، اس لئے کہ آیت میں ثلاثة قرؤ ، تین کا جملہ ہے ، اب حیض مراد لیں تب ہی مکمل تین پر عمل ہو گا اور طہر مراد لیں تو مکمل تین پر عمل نہیں ہو گا ، یا ڈھائی طہر ہو جائے گا ، یا ساڑھے تین طہر ہو جائے گا مکمل تین کبھی نہیں رہے گا ، اس لئے کہ حدیث کی بنا پر طہر میں طلاق دینا سنت ہے ، پس جس طہر میں طلاق دی اس کا کچھ حصہ لازمی طور پر گزر چکا ہو گا، اب اس کو شمار کرتے ہیں تو آگے دو طہر ملا کر ڈھائی طہر ہوئے ، اور اگر اس کو شمار نہیں کرتے ہیں ، تو کچھ حصہ اس طہر کا اور