٢ ولہما ان الاصل عدم الخیار لما فیہ من ابطال حق الزوج وانما یثبت فی الجب والعنة لانہما یخلان بالمقصود المشروع لہ النکاح وہٰذہ العیوب غیرمخلة بہ فافترقا،واللٰہ اعلم بالصواب
البقرة ٢)ان آیتوں میں ہے کہ امساک بالمعروف نہ کر سکو تو احسان کے ساتھ چھوڑ دو ۔ (٩) رتق کے بارے میں یہ اثر ہے ۔ عن الزھری قال ترد النکاح الرتقاء ۔و الرتقاء ھی التی لا یقدر الرجل علیھا ۔( مصنف عبد الرزاق، باب ما یرد من النکاح ، ج سادس ، ص ١٩٣، نمبر ١٠٧٢٤) اس اثر میں ہے کہ رتق سے نکاح توڑا جا سکتا ہے ۔(١٠) عامل عمر بن عبد العزیز أخبرہ قال انتھی الینا رجل و امراة قد تزوجھا فلما دخل بھا وجدھا مرتتقة متلاقیة العظمین ، لا یقوی علیھا الرجل و لیس لھا مھراق الماء ، فکتب فیھا الی عمر بن العزیز فکتب فیھا الی ّ أن استحلف الوالی ما علم فان حلف فأجز النکاح فما أظن رجلا رضی بمصاحرة قوم الا سیرضی بأمانتھم ، و ان لم یحلف فاحمل علیہ الصداق۔( مصنف عبد الرزاق، باب ما یرد من النکاح ، ج سادس ، ص ١٩٣، نمبر ١٠٧٢٤) اس اثر میں ہے کہ قرن میں ولی قسم نہ کھائے تو اس سے مہر وصول کیا جائے گا۔
ترجمہ: ٢ شیخین کی دلیل یہ ہے کہ اصل تو اختیار نہ ہو نا ہے اس لئے کہ اس میں شوہر کا حق باطل ہو تا ہے ، اور ذکر کٹے ہوئے میں اور عنین میں اختیار ثابت ہے اس لئے کہ نکاح جس کے لئے مشروع کیا گیا ہے وہ دونوں اس مقصد میں خلل اندازہیں ، اور یہ عیوب اتنا خلل انداز نہیں ہیں ، اس لئے دونوں میں فرق ہو گیا ۔
تشریح: شیخین کی دلیل یہ ہے کہ اصل تو یہ ہے کہ عنین اور ذکر کٹے ہوئے میں بھی عورت کو تفریق کا اختیار نہ ہو ، کیونکہ اس سے عورت کا تو فائدہ ہے لیکن شوہر کا حق باطل ہو تا ہے، لیکن عنین اور ذکر کٹے ہوئے میں وطی پر قدرت ہی نہیں ہے جو نکاح کا مقصد ہے اس لئے اس میں اختیار دے دیا گیا ، اور ان پانچ مرضوں میں وطی پر قدرت تو ہے البتہ با ضابطہ وطی نہیں کر سکتا ہے ، لیکن اس سے اختیار نہیں دیا جائے گا کیونکہ مقصد نکاح وطی پر قدرت موجود ہے ۔
اصول : شیخین ، نکاح بحال رہنے کے لئے وطی کی قدرت کافی ہے ، چاہے با ضابطہ وطی نہ کر سکے ۔
اصول : ا مام محمد کا اصول یہ ہے کہ باضاطہ وطی کرے ، صرف وطی کی قدرت رکھنا کا فی نہیں ۔
وجہ : ان اثار سے پتہ چلتا ہے کہ با ضابطہ وطی ضروری ہے (١) عن ابی سلمة بن عبد الرحمن ان امرأة جائت عمر فقالت : زوجی رجل صدق یقوم اللیل و یصوم النھار ، و لا أصبر علی ذالک قال فدعاہ فقال لھا من کل أربعة أیام یوم ، و فی کل أربع لیال لیلة ۔ ( مصنف عبدالرزاق، باب حق المرأة علی زوجھا و فی کم تشتاق؟ ، ج سابع، ص ١١٧، نمبر ١٢٦٤٠) اس اثر میں ہے کہ جوان کے لئے ہر چار روز میں عورت کو وطی کرانے کا حق ہے ۔(٢) عن زید بن أسلم قال بلغنی ان عمر ابن الخطاب جائتہ امرأة فقالت ان زوجھا لا یصیبھا فأرسل الی زوجھا فجاء فسألہ فقال قد کبرت