٢ ولان الحق ثابت لہا فی الوطی ویحتمل ان یکون الامتناع لعلة معترضةویحتمل لاٰفة اصلیة فلابد من مدة معرفة لذلک وقدرنا ہا بالسنة لاشتمالہاعلی الفصول الاربعة فاذا مضت المدة ولم یصل الیہا تبین ان العجز باٰفة اصلیة ففات الامساک بالمعروف ووجب علیہ التسریح بالاحسان فاذا امتنع ناب القاضی منا بہ ففرق بینہما
ھدیة الثوب فتبسم رسول اللہ ۖ فقال أتریدین أن ترجعی الی رفاعة ؟لا حتی تذوقی عسیلتہ و یذوق عسیلتک ۔ (مسلم شریف ، باب لا تحل المطلقة ثلاثا لمطلقھا الخ، ص ٤٦٣ ،نمبر ٣٥٢٦١٤٣٣ ) اس حدیث میں ہے کہ جماع کی طاقت نہیں تھی تو آپ ۖ نے تفریق کروائی ۔(٣)اثر میں ہے جسکو صاحب ہدایہ نے پیش کیا ہے ۔عن عمر بن الخطاب انہ قال فی العنین یوجل سنة فان قدر علیھا والا فرق بینھما ولھا المہر وعلیھا العدة۔ (سنن للبیہقی ، باب اجل العنین ج سابع، ص٣٦٨،نمبر ١٤٢٨٩ مصنف عبد الرزاق ، باب اجل العنین، ج سادس ،ص٢٠٠ ،نمبر١٠٧٦٢دار قطنی ، کتاب النکاح، ج ثالث، ص ٢١١ ،نمبر ٣٧٦٩) اس اثر سے معلوم ہوا کہ حاکم کے پاس معاملہ لے جانے کے وقت سے ایک سال کی مہلت دی جائے گی۔اس مدت میں صحبت کے قابل ہو جائے تو ٹھیک ہے ورنہ عورت کے مطالبے پر تفریق کردی جائے گی۔پھر عورت کو مہر بھی ملے گا اور اس پر عدت بھی لازم ہوگی ۔کیونکہ خلوت صحیحہ ہو چکی ہے ۔(٤) اس اثر میں عبد اللہ ابن مسعود کا قول ہے ۔ ان عمر وابن مسعود قضیا بانھا تنتظر بہ سنة ثم تعتد بعد السنة عدة المطلقة وھو احق بامرھا فی عدتھا ۔ (مصنف عبد الرزاق ، باب اجل العنین ،ج سادس، ص ٢٠٠ ،نمبر ١٠٧٦٤ مصنف ابن ابی شیبة،١٦٣ ماقالوا فی امرأة العنین اذا فرق بینھما علیھا العدة ؟ ،ج رابع، ص ١٥٤، نمبر ١٨٧٩٦ ) اس اثر میں ہے کہ ایک سال کی مہلت دے جائے پھر تفریق کرا دی جائے ۔
ترجمہ: ٢ اور اس لئے کہ عورت کا حق وطی کے لئے ثابت ہے ، اور احتمال رکھتا ہے وطی سے رکنا کسی عارضی علت کی وجہ سے ہو ، اور یہ بھی احتمال رکھتا ہے کہ کسی اصلی آفت کی وجہ سے ہو ، اس لئے ایک مدت چا ہئے جس میں اس کو اس کو پہچانا جائے ، اور اس کو ہم نے ایک سال سے متعین کیا اس لئے کہ اس میں چاروں موسم شامل ہیں ، پس جب یہ مدت گزر گئی اور وطی نہ کر سکا تو ظاہر ہو گیا کہ عاجزی آفت اصلیہ سے ہے اس لئے امساک بالمعروف فوت ہو گیا تو شوہر پر تسریح بالاحسان واجب ہے پس جب وہ اس سے رک گیا تو قاضی اس کا قائم مقام ہو گا اور دونوں کے درمیان تفریق کرائے گا ۔
تشریح: عنین میں ایک سال مہلت دینے کی یہ دلیل عقلی ہے ۔ کہ بیوی ہونے کی وجہ سے شوہر پر وطی کروانے کا حق ہے ، لیکن وہ وطی نہیں کر سک رہا ہے تو اس بات کا احتمال رکھتا ہے کہ یہ عاجزی وقتی اور عارضی ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اصلی عاجزی ہو، اس لئے اتنی مدت مہلت دینے کی ضرورت ہے جس سے معلوم ہو جائے کہ یہ اصلی عاجزی ہے اور اب دوبارہ ٹھیک ہو نا نا ممکن ہے اس لئے اب