٥ وعن ابی یوسف انہ اذا قال امرک بیدک الیوم امرک بیدک غدا انہما امران لما انہ ذکر لکل وقت خبراً علی حدةٍ بخلاف ما تقدم (١٨٣٨) وان قال امرک بیدک یوم یقدم فلان فقدم فلان ولم تعلم بقدومہ حتی جن اللیل فلا خیار لہا ) ١ لان الامر بالید مما یمتد فیحمل الیوم المقرون بہ علی بیاض النہار وقد حققناہ من قبل فیتوقت بہ ثم ینقضی بانقضاء وقتہ
تشریح : ظاہر روایت کی وجہ یہ ہے کہ عورت نے آج اپنے آپ کو اختیار کر لیا اور اپنے کو طلاق دے دی تو کل بھی وہ مطلقہ ہی رہے گی اب کل شوہر کو اختیار کر کے طلاق سے نہیں چھوٹ سکتی کیونکہ مطلقہ پھر دو بارہ طلاق سے نہیں چھوٹ سکتی ، اسی طرح جب آج شوہر کو اختیار کر لیا اور اپنے آپ کو طلاق نہیں دی تو کل بھی وہ شوہر ہی کو اختیار کی ہوئی رہے گی اور اختیار ختم ہو جائے گا ، کیونکہ شوہر نے دو باتوں میں سے ایک کا اختیار دیا ہے ، یا عورت اپنے کو اختیار کرے یعنی طلاق دے ، یا شوہر کو اختیار کرے ، یعنی طلاق نہ دے ، پس جب آج شوہر کو اختیار کر لیا تو کل اپنے کو اختیار نہیں کر سکتی ۔
ترجمہ: ٥ امام ابو یوسف سے ایک روایت ہے کہ اگر امرک بیدک الیوم ، و امرک بیدک غدا ، کہا تو یہ دو اختیار ہیں ، اس لئے کہ ہر ایک کے لئے الگ الگ خبر ذکر کی ، بخالف اس کے جو پہلے گزرا ۔
تشریح: امام ابو یوسف نے فر ما یا کہ٫ امرک بیدک الیوم ، و امرک بیدک غدا ، کہا تو یہاں دو الگ الگ جملے ہیں اور دو نوں کی خبر الگ الگ ہیں اس لئے دو اختیار ہوئے ، اس لئے پہلے دن کے اختیار کو رد کر دیا تو دوسرے دن کا اختیار باقی رہے گا ، یہ سب کے نزدیک ہے ، البتہ پہلے جملے میں دونوں جملوں کی خبر ایک ہی تھی اس لئے ایک جملہ ہوا اور ایک ہی اختیار ہوا اس لئے ایک کے رد کرنے سے پورا ہی رد ہو گیا ۔
ترجمہ: (١٨٣٨) اگر کہا٫ امر ک بیدک یوم یقدم فلان، ]کہ جس دن فلاں آئے اس دن تمکو اختیار ہے [اور فلاں کے آنے کا علم نہ ہوسکا کہ رات ہو گئی تواب عورت کو اختیار نہیں ہو گا۔
ترجمہ: ١ اس لئے کہ امر بالید اس میں سے ہے جو ممتد ہو تا ہے اس لئے جس کے ساتھ یوم ملا ہوا ہے اس سے دن کی سفیدی مراد لی جائے گی ، اس بات کو ہم نے پہلے محقق کر دیا ہے ، اس لئے دن ہی کے ساتھ متعین ہو گا ، پھر دن کے ختم ہو نے سے اس کا وقت ختم ہو جائے گا ۔
تشریح: شوہر نے کہا جس دن فلاں آئے اس دن تم کو اختیار ہے ، اب وہ دن کو ہی آیا لیکن عورت کو پتہ نہیں چلا اور رات ہو گئی تو عورت کا اختیار ختم ہو گیا ۔ یہاں دو باتیں ہیں ]١[ ایک تو یہ کہ یوم کا تعلق اختیار ]امر بالید [ سے اور یہ اختیار ممتد ہو تا ہے ، دن بھر رہتا ہے اس لئے یہاں یوم سے مراد صرف دن ہو گا ، اس میں رات شامل نہیں ہو گی ، اس لئے رات آتے ہی اختیار ختم ہو جائے گا ، اور