٢ لہما ان ذکر الاولیٰ ومایجرے مجراہ ان کان لا یفید من حیث الترتیب ولکن یفید من حیث الافراد فیعتبر فیما یفید ٣ ولہ ان ہذاوصف لغو لان المجتمع فی الملک لا ترتیب فیہ کالمجتمع فی المکان والکلام للترتیب والافراد من ضروراتہ فاذ الغافی حق الاصل لغا فی حق البناء
واحدة قال بانت منہ بثلاث ۔ ( مصنف ابن ابی شیبة ، باب فی الرجل یخیر امراتہ ثلاثا فتختار مرة ، ج رابع ، ص ٩٤ ، نمبر ١٨١٢١)۔ (٢) اس اثر میں بھی ہے ۔عن عبد اللہ قال اذا خیرھا ثلاثا فاختارت نفسھا مرة فھی ثلاث ۔ ( مصنف ابن ابی شیبة ، باب فی الرجل یخیر امراتہ ثلاثا فتختار مرة ، ج رابع ، ص ٩٤ ، نمبر١٨١٢٠) ان دونوںاثر میں ہے کہ تین مرتبہ اختیار دے اور عورت اس میں ایک مرتبہ اختیار کرے تب بھی تین ہی واقع ہوں گی۔(٣) امام ابو حنیفہ کا اصول یہ ہے کہ تین میں سے ایک کو بھی عورت نے استعمال کیا تو مجموعہ تینوں پڑ جائے گی ، اور صاحبین کا اصول یہ ہے کہ ایک کو استعمال کیا تو تینوں نہیں پڑے گی جتنا عورت نے استعمال کیا اتنی ہی پڑے گی ۔
ترجمہ: ٢ صاحبین کی دلیل یہ ہے کہ، پہلے کو ذکر کر نا یا جو اس کے قائم مقام ہو اس کو ذکر کرنا اگر چہ ترتیب کے حیثیت سے فائدہ نہیں دیتا لیکن افراد کی حیثیت سے فائدہ دیتا ہے ، پس جہاں فائدہ دیتا ہے اس کا اعتبار کیا جائے گا ۔
تشریح: یہاں لفظی بحث ہے جسکو سمجھنا ضروری ہے ۔ پہلی ، دوسری ، اور تیسری میں ترتیب ہے ، پہلی اس کو کہتے ہیں جو پہلے واقع ہو ، دوسری اس کو کہتے ہیں جو اس کے بعد واقع ہو ، اور تیسری اس کو کہتے ہیں جو اس کے بعد واقع ہو ۔ دوسرا ہے ٫افراد ، کہ اولی کے لفظ سے پہلے لفظ کی طرف اشارہ ہو ، اور وسطیٰ ، کے لفظ سے دوسرے کی طرف اشارہ ہو ، اور آخیرہ ، کے لفظ سے تیسرے کی طرف اشارہ ہو ، اس کو افراد کہتے ہیں ۔ عبارت کی تشریح یہ ہے کہ اولی ، یا وسطیٰ ، یا آخیرہ جو بھی بولے طلاق کے بارے میں یہ ترتیب کا فائدہ نہیں دے گا ، لیکن یہ افراد کا فائدہ دے گا ، یعنی اس سے عورت اشارہ کر سکتی ہے شوہر کے کس اختاری کو میں اپنے اوپر نافذ کر رہی ہوں ، جس اختاری کو نافذ کرے گی وہی اختاری نافذ ہو گی ، اور باقی نہیں ہو گی ، اور عورت نے ایک اختاری اپنے اوپر نافذ کی ہے اس لئے ایک ہی طلاق واقع ہو گی ، سبھی نہیں ہو گی ۔
ترجمہ: ٣ امام ابو حنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ ترتیب والا وصف لغو ہے اس لئے کہ سبھی طلاقیں ایک ساتھ شوہر کے ذہن میں مجتمع ہے جس میں کوئی ترتیب نہیں ہے ، جیسے کچھ آدمی کسی مکان میں مجتمع ہو ، اور کلام ترتیب کے لئے آتا ہے اور افراد ترتیب کی ضرورت میں سے ، پس جب اصل کے حق میں ترتیب لغو ہو گئی تو اس پر جو بنا ہے اس کے حق میں بھی ترتیب لغو ہو جائے گی ۔
تشریح: یہ دلیل عقلی ہے ،اصل تو اوپر کا اثر ہے ۔امام ابو حنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ شوہر کے ذہن میں تینوں طلاق کا مجموعہ ہے ،