٢ وجہ الاستحسان حدیث عائشة رضی اللہ عنہا فانہا قالت لا بل اختار اللہ ورسولہ واعتبرہ النبی علیہ السلام جوابا منہا ٣ ولان ہٰذہ الصیغة حقیقة فی الحال وتجوز فی الاستقبال کما فی کلمة الشہادة واداء الشہادة ٤ بخلاف قولہا اطلق نفسی لانہ تعذر حملہ علی الحال لانہ لیس بحکاےة عن حالةٍ قائمةٍ ولا کذلک قولہا انا اختار نفسی لانہ حکاےة عن حالة قائمة وہو اختیارہا نفسہا
ترجمہ: ٢ استحسان کی وجہ یہ ہے میں انہوں نے فر مایا تھا بل اختار اللہ و رسولہ اور نبی علیہ السلام نے اس کو جواب شمار کیا ۔
تشریح: ہم نے اختار کے لفظ سے طلاق اس لئے واقع کیا کہ حضرت عائشہ کی حدیث میں اختار اللہ و رسولہ ، فعل مضارع کے ساتھ ہے اور حضور ۖ نے اس کو اللہ کو اختیار کر نا شمار کیا ، اس لئے اس حدیث کی وجہ سے ہم بھی فعل مضارع سے طلاق واقع کرتے ہیں ۔حدیث کا ٹکڑا یہ ہے ۔ عن جابر بن عبد اللہ قال دخل ابو بکر یستأذن علی رسول اللہ ۖ .....افیک یا رسول اللہ ! استشیرأبوی ؟بل اختار اللہ و رسولہ و الدار الآخرة ۔( مسلم شریف، باب بیان ان تخییر ہ امراتہ لا یکون طلاقا الا بالنیة ، ص٦٣٤، نمبر ١٤٧٨ ٣٦٩٠) اس حدیث میں اختار فعل مضارع ہے ۔
ترجمہ: ٣ اور اس لئے کہ یہ صیغہ حقیقة حال کے لئے ہے اور مجازا استقبال کے لئے ہے ، جیسے کلمہ شہادت میں ہو تا ہے ، اور گواہی کی ادائیگی میں ہو تا ہے ۔
تشریح: یہ دوسرا جواب ہے فعل مضارع کا صیغہ حقیقت میں حال کے لئے آتا ہے اور مجازا استقبال کے لئے آتا ہے ، اس لئے ہم نے حدیث کی وجہ سے حال کا معنی لیا اور طلاق واقع کی ، اس کی دو مثالیں دی ]١[ جیسے کلمہ شہادت ٫ اشہد ان لا الہ الااللہ و اشہد ان محمدا عبدہ و رسولہ، میںاشہد فعل مضارع ہے اس کے با وجود حال کے معنی میں لیکر آدمی کو مسلمان شمار کرتے ہیں ، اسی طرح یہاں بھی حال کے معنی میں لیا جائے گا ]٢[ آدمی جب کسی چیز کی گواہی دیتا ہے تو اشہد ، فعل مضارع کہتا ہے اور اس کا معنی یہ نہیں لیا جاتا کہ میں گواہی دوں گا ، بلکہ اس کا معنی یہ لیا جاتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں ، اسی طرح یہاں بھی اختار کا ترجمہ حال کا لیکر طلاق واقع کی جائے گی ۔
لغت: تجوز کا ترجمہ ہے مجاز کے طور پر ۔کلمة الشہادة : سے مراد اشہد لا الہ الا اللہ الخ ہے ، اور اداء الشہادة سے مراد گواہی دینا ہے۔
ترجمہ: ٤ بخلاف اس کا قول ٫اطلق نفسی ، کے اسلئے حال پر حمل کر نا متعذر ہے اس لئے کہ ایسی حالت جو پہلے سے موجود ہو اس کی حکایت نہیں ہے ، اور اختار نفسی ، ایسا نہیں ہے اس لئے کہ ابھی جو حالت قائم ہے اس کی حکایت ہے ، اور وہ ہے اپنی ذات کو اختیار کر نا ۔