٢ والثنتان فی حق الامة کالثلٰث فی حق الحرّة لان الرق منصّف لحل المحلےة علیٰ ما عرف
٣ ثم الغاےة نکاح الزوج مطلقاً والزوجےة المطلقة انماتثبت بنکاح صحیح
ویطأھا ثم یفارقھا وتنقضی عدتھا ،ص ٤٧٧ ،نمبر ٣٥٢٦١٤٣٣ ابو داؤد شریف ، باب المبتوتة لا یرجع الیھا زوجھا حتی تنکح زوجا غیرہ ، ص ٣٣٦،نمبر ٢٣٠٩ ترمذی شریف ،نمبر ١١١٨) اس حدیث مشہور سے معلوم ہوا کہ صحبت کئے بغیر پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ہوگی۔
ترجمہ: ٢ اور دو طلاق باندی کے حق میںایسی ہے جیسے تین طلاق آزاد کے حق ہیں ، اس لئے کہ باندیت ہونا محل کے حلال ہو نے کو آدھا کرتا ہے جیسے کہ پہچانا گیا ۔
تشریح: باندی کے حق میں دو طلاق ایسی ہے جیسے آزاد کے حق میں تین طلاق یعنی جس طرح تین طلاق سے مغلظہ ہو تی ہے اسی طرح باندی دو طلاق سے مغلظہ ہو تی ہے ۔
وجہ : (١) اس کی وجہ یہ ہے کہ غلام اور باندی پر رقیت کی وجہ سے سزا بھی آدھی ہے ، اور نعمت بھی آدھی ہے ، اور بضع کا حلال ہو نا نعمت ہے اس لئے وہ آزاد کی آدھی طلاق سے ہی حرام ہو جائے گی ، اور آزاد کی طلاق مغلظہ تین ہے اس لئے اس کی آدھی ڈیڑھ ہو نی چاہئے ، لیکن طلاق میں آدھا نہیں ہو تا تو اس لئے دو طلاق سے مغلظہ ہو گی ۔ الرق منصف لحل المحلیة ، کا یہی مطلب ہے ۔باندی پر آدھی سزا ہے اس کی دلیل یہ آیت ہے ۔و من لم یستطع منکم طولا ان ینکح المحصنات المؤمنات فمن ما ملکت ایمانکم من فتیاتکم المؤمنات .....فان أتین بفاحشة فعلیھن نصف ما علی المحصنات من العذاب۔( آیت ٢٥، سورة النساء ٤) اس آیت میں ہے کہ باندی پر آدھی سزا ہے تو نعمت بھی آدھی ہی ہو گی ۔ (٢) اور باندی دو طلاقوں سے مغلظہ ہو گی اس کی دلیل یہ حدیث ہے۔ عن عائشة عن النبی ۖ قال طلاق الامة تطلیقتان وقروئھا حیضتان ۔(ابو داؤد شریف ، باب فی سنة طلاق العبد، ص ٣٠٤، نمبر ٢١٨٩ ترمذی شریف ، باب ماجاء ان طلاق الامة تطلیقتان، ص ٢٢٣ ،نمبر ١١٨٢ ابن ماجہ شریف ، نمبر ٢٠٨٠) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ باندی دو طلاقوں سے مغلظہ ہو جائے گی۔
ترجمہ: ٣ پھر حرمت کی غایت مطلق شوہر کا نکاح کرنا ہے اور مطلق زوجیت ثابت ہو تی ہے نکاح صحیح سے ]اس لئے نکاح صحیح سے حلالہ ہو گا نکاح فاسد سے نہیں [
تشریح: آیت ۔فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ (آیت ٢٣٠ سورة البقرة٢) میں مطلق نکاح سے حلالہ کرنے کے لئے کہا گیا ہے اس میں فاسد نکاح یا صحیح نکاح کی قید نہیں ہے اور مطلق نکاح جب کہا جائے گا تو اس سے نکاح صحیح ثابت ہو تا ہے اس لئے نکاح صحیح سے حلالہ ہو گا ، نکاح فاسد سے حلالہ نہیں ہو سکے گا ۔