(١٩٠٤) ومن قذف امرائة وہوصحیح ولا عن فی المرض ورثت وقال محمد لا ترث وان کان القذف فی المرض ورثتہ فی قولہم جمیعاً) ١ وہذا ملحق بالتعلیق بفعل لا بد لہا منہ اذ ہی ملجأة الی الخصومة لدفع عار الزناء عن نفسہا وقد بینا الوجہ فیہ
تشریح: مریض شوہر نے طلاق نہیں دی ، اور عورت نے اس کے بیٹے سے جماع کرالیا تو وہ شوہر کی بہو بن گئی جس کی وجہ سے نکاح ٹوٹ گیا، اب عورت کو وراثت نہیں ملے گی ، کیونکہ عورت طلاق واقع ہو نے پر اورنکاح ٹوٹنے پر خود راضی ہوئی اس لئے وراثت نہیں ملے گی ، اور یہاں صورت حال یہ ہے کہ شوہر نے تین طلاقیں دے کر پہلے سے ہی نکاح توڑ رکھا ہے ، اور عورت اس کے مال کا وارث بن چکی ہے، عورت کی اطاعت سے نکاح نہیں ٹوٹا اس لئے اس کی وراثت بحال رہے گی ۔
ترجمہ: (١٩٠٤) کسی نے اپنی بیوی کو تندرستی کی حالت میں زنا کی تہمت لگائی ، اور مرض میں لعان کیا تو وارث ہو گی ، اور امام محمد نے فر مایا کہ وارث نہیں ہو گی ۔ اور اگر تہمت بھی مرض میں لگائی تو سب کے قول میں وارث ہو گی ۔
تشریح: یہاں تین مسئلے ہیں ۔عورت کو صحت کی حالت میں تہمت لگائی اس لئے اپنی عزت کی حفاظت کے لئے قاضی کے پاس جانے کے لئے مجبورتھی پس وہ شوہر کی مرض الموت میں لعان کے لئے پہنچی اور لعان ہوا اور تفریق ہوئی ، ابھی عدت چل ہی رہی تھی کہ شوہر کا انتقال ہوا تو عورت وارث ہو گی ۔
وجہ : اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت اپنی عزت کی حفاظت کے لئے قاضی کے پاس جانے کے لئے مجبور ہے، چاہے صحت میں ہو یا مرض میں ہو، اس لئے وہ طلاق سے راضی نہیں ہے اس لئے وارث ہو گی ۔
امام محمد فر ماتے ہیں کہ وارث نہیں ہو گی ، انکی دلیل یہ ہے کہ شوہر نے صحت میں تہمت لگائی تو عورت کو صحت میں ہی لعان کا مطالبہ کر نا چاہئے ، مرض میں مطالبہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ طلاق سے راضی ہے اس لئے وراثت نہیں ملے گی ، دوسری دلیل یہ ہے کہ شوہر مرض میں تہمت لگاتا تو فار سمجھا جاتا ، اس نے تو صحت میں تہمت لگائی ہے اس لئے وہ فار نہیں ہے اس لئے وارث نہیں ہو گی ۔
اور اگر شوہر مرض میں تہمت لگاتا اور مرض ہی میں لعان کرتی تو سب کے نزدیک وارث ہو گی ، اس کی وجہ یہ ہے کہ مرض میں تہمت ڈال کر عورت کو لعان پر اور تفریق پر مجبور کیا ، اور وراثت سے محروم کرنے کا ارادہ کیا اس لئے وہ وارث ہو گی ۔
ترجمہ: ١ یہ مسئلہ ملحق ہے ایسے فعل کے ساتھ جس کا کرنا ضروری ہو اس لئے کہ عورت اپنے سے زنا کی عار کو دفع کرنے کے لئے مجبور ہے ، اور میں نے اس میں وجہ بیان کر دی ہے۔
تشریح: صاحب ہدایہ فر ماتے ہیں کہ اس مسئلے کا شمار اس قاعدے کے ساتھ متعلق ہے کہ شوہر نے خود تو طلاق نہ دی ہو ، لیکن عورت کے ایسے فعل پر طلاق معلق کیا ہو جس کے کرنے پر عورت مجبور ہو ، کیونکہ زنا کی عار کو دور کر نے کے لئے قاضی کے پاس جانے