(١٩٠٢)قال واذا طلّقہا ثلثا وہو مریض ثم صح ثم مات لم ترث) ١ و قال زفر ترث لانہ قصد الفرار حین اوقع فی المرض وقد مات وہی فی العدّة ٢ ولکنا نقول المرض اذا تعقّبہ برئ فہو بمنزلة الصحة لانہ ینعدم بہ مرض الموت فتبین انہ لا حقّ لہا یتعلق بمالہ فلا یصیر الزوج فارّا (١٩٠٣) ولوطلقہا فارتدت والعیاذ باللہ ثم اسلمت ثم مات من مرض موتہ وہی فی العدہ لم ترث وان لم ترتد بل طاوعت ابن زوجہا فی الجماع ورثت)
جائے گا تو گویا کہ شوہر نے مرض کی حالت میں طلاق کا کام کیا اس لئے وہ وارث ہو گی ۔ جیسے اکراہ میں عورت کو کام کرنے پر مجبور کرے تو عورت وارث ہو گی ۔۔ الجأ: مجبور کر نا ۔
ترجمہ: ( ١٩٠٢) اگر عورت کو تین طلاق دی اس حال میں کہ وہ مریض تھا ، پھر تندرست ہوا ، پھر مر گیا تو وارث نہیں ہو گی ۔
تشریح: مرض کی حالت میں تین طلاقیں دیں ، پھر صحتمند ہو گیا ، پھر عدت ہی میں تھی کہ شوہر مر گیا تو وہ وارث نہیں ہو گی ۔
وجہ: بیماری کے بعد جب صحتمند ہو گیا تو یہ بیماری مرض الموت نہیں رہی اس لئے اس میں طلاق دینے سے عورت وارث نہیں ہو گی۔
ترجمہ: ١ امام زفر نے فر مایا کہ وارث ہو گی کیونکہ مرض میں طلاق دیکر بھاگنے کا ارادہ کیا اور عدت ہی میں شوہر مرا ہے اس لئے وارث ہو گی ۔ ۔ تشریح آسان ہے۔
ترجمہ: ٢ لیکن ہم کہتے ہیں کہ مرض کے بعد تندرستی آجائے تو وہ صحت کے درجے میں ہے ، اس لئے کہ اب مرض الموت ختم ہو گیا اور ظاہر ہو گیا کہ عورت کا حق اس کے مال کے ساتھ متعلق نہیں ہے اس لئے شوہر فار نہیں ہوا۔
تشریح: ہماری دلیل یہ ہے کہ مرض الموت میں عورت کا حق شوہر کے مال سے متعلق ہو تاہے ، اور اس وقت طلاق دے تو فار شمار ہو تا ہے ، اور جب اس مرض میں نہیں مرا تو وہ مرض الموت نہیں ہوا ، اور عورت کا حق اس کے مال کے ساتھ متعلق نہیں ہوا اس لئے طلاق دیکر فار بھی نہیں ہوا اس لئے عورت وارث بھی نہیں ہو گی ۔
ترجمہ: (١٩٠٣) اگر بیوی کو طلاق دیا اور عیاذ باللہ وہ مرتد ہو گئی پھر مسلمان ہوئی پھر شوہر اپنی مرض الموت میں مرا اور حال یہ ہے کہ عورت عدت میں تھی تو وارث نہیں ہو گی ، اور اگر مرتد نہیں ہوئی بلکہ اپنے بیٹے کی جماع کے سلسلے میں مطاوعت کی تو وارث ہو گی۔
تشریح: شوہر نے بیوی کو اپنی میں طلاق دی ، عورت اس کے بعد مرتد ہو گئی ، اس کے بعد مسلمان ہوئی اور ابھی عدت ہی میں تھی کہ شوہر کا اسی مرض الموت میں انتقال ہوا تو عورت وارث نہیں ہو گی ، اس کی وجہ یہ ہے کہ مرتد ہو نے کی وجہ سے وارث ہو نے کی