الاصحاء وقد یثبت حکم الفرار بما ھو فی معنی المرض فی توجہ الہلاک الغالب وما یکون الغالب منہ السّلامة لا یثبت بہ حکم الفرار
٢ فالمحصور والذی فی صفّ القتال الغالب منہ السلامة لان الحصن لدفع بأس العدوّ وکذا المنعةُ فلا یثبت بہ حکم الفرار ٣ والذی بارزاوقدم لیقتل الغالب منہ الہلاک فتحقق بہ الفرار ٤ ولہذا اخوات تخرج علیٰ ہذاالحرف
ثابت نہیں ہو گا ۔
تشریح: اصل قاعدہ یہ ہے کہ فار کی بیوی استحسانا وارث ہو گی ۔فرار اس وقت ثابت ہو گا جبکہ ایسے مرض میں مبتلا ہو چکا ہو جس سے تندرست ہو نا مشکل نظر آتاہو مثلا آدمی بستر پکڑ چکا ہو اور تندرستوں کی طرح اپنی ضرورت پوری نہیں کر سکتا ہو ۔ایسے موقع پر طلاق سے سمجھا جائے گا کہ یہ عورت کو اپنی وراثت سے محروم کرنا چاہتا ہے اور طلاق دیکر بھاگنا چا ہتا ہے ۔ یا جس چیز میں غالب ہلاکت ہے وہ بھی مرض الموت کے معنی میں ہے ۔مثلا رجم کے لئے لیجانا ، قصاص کے لئے لیجانا مرض الموت کے معنی میں ہے ۔ اور جن چیزوں میں غالب سلامت ہے اس وقت طلاق دینے سے فار نہیں ہو گا ۔
ترجمہ: ٢ پس قلعے میں محصور ، اور جو قتال کی صف میں ہے غالب اس سے سلامت ہے اس لئے کہ قلعہ دشمن کی طاقت کو دفع کرنے کے لئے ہے اور ایسے ہی لشکر اس لئے اس سے فرار کا حکم ثابت نہیں ہو گا ۔
تشریح: ]١[جو قلعہ میں محصور ہے اس کی موت یقینی نہیں ہے کیونکہ قلعہ حفاظت کے لئے ہے ۔]٢[ جو قتال کی صف میں ہے اس کی موت یقینی نہیں ، کیونکہ باقی لشکر دشمن کو دفع کرنے کے لئے ہے ، اس لئے ایسے موقع پر طلاق دینا فرار نہیں ہے ۔ ۔حصن : قلعہ۔ المنعة :رو کنے کی چیز ، مراد ہے لشکر۔
ترجمہ: ٣ اور جو مقابلے کے لئے نکلا ، یا قتل کرنے کے لئے آگے بڑھایا تو غالب اس سے ہلاکت ہے اس لئے اس سے فرار متحقق ہوگا۔
تشریح: جس نے مقابلے کے لئے دشمن کو دعوت دی تو غالب یہ ہے وہ مرے گا ، اسی طرح جس کو قصاص میں یا رجم میں قتل کے لئے آگے لے جایا جا رہا ہو تو غالب یہ ہے کہ وہ مرے گا اس لئے اس وقت طلاق دینا فرار ہے اس لئے وارث بنے گی ۔
ترجمہ: ٤ اس کے لئے بہت سارے نظائر ہیں جو اسی اصول پر نکالے جا سکتے ہیں ۔
تشریح: کہاں موت غالب ہے اور کہاں غالب نہیں ہے اس کے لئے بہت سی مثالیں ہیں جو اسی قاعدے پر نکا لی جا سکتیں ہیں ۔