جہل کی وجہ سے اس میں غلو کرلیا ۔ جیسا کہ میں نے ابھی ایک شخص کا قصہ بیان کیا ہے کہ وہ خدا کو پیر کی صورت میں سمجھنے کو تصور شیخ جانتا تھا ۔ اور اگر محض تصور کا مرتبہ ہو تو اس میں دورے لوگوں نے غلو کیا ہے جو علماء ظاہر کہلاتے ہیں انھوں نے اس کو بھی حرام کہہ دیا ۔ حالانکہ اس میں خرابی ہی کیا ہے ؟ بلکہ یہ تو ازالۂ خطرات بمعنی اضمحلال میں مفید ہے اور اس کا راز یہ ہے کہ عقلی مسئلہ ہے ۔’’النفس لا تتوجہ الی شیئین فی اٰن واحد ‘‘نفس کو ایک وقت میں دو چیزوں کی طرف توجہ نہیں ہوسکتی ۔ پس خطرات اسی وقت آئیں گے ۔ جب تک قلب کو کسی خاص چیز سے تعلق نہیں ہوا اور اگر کسی شے سے قلب کو تعلق ہوجائے تو پھر خطرات نہ آئیں گے ۔ اس لیے ازالۂ خطرات کے واسطے قلب کو کسی دوسری طرف متوجہ کردینا مفید ہے اگر حق تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم ہوجائے تو اس سے بہتر کیا ہے ؟ یہ تو اصل مقصود ہے ۔ لیکن مبتدی کے قلب کو ابتداء میں حق تعالیٰ کے ساتھ ایسا تعلق قوی دشوار ہے کہ اس کے ساتھ اور کسی شے کا تصور نہ آوے کیونکہ حق تعالیٰ محسوس ومشاہد نہیں ، غائب از نظر ہیں اور مبتدی کا تصور غاب کے ساتھ نہیں جمتا ۔ اس لئے ضرورت اس کی ہے کہ کسی محسوس چیز کا تصور کیا جائے جو آسانی کے ساتھ دل میں قائم ہوجائے ۔ گو اس کے لیے بیوی کا تصور بھی کافی ہے ۔ مگر صوفیہ نے شیخ کو اس لئے تجویز کر لیا کہ وہ محسوس ہونے کے ساتھ معین فی الدین ( دین کا مددگار) بھی ہے ۔ اس کی محبت تعلق سے مانع نہیں بلکہ اس کو بڑھانے والی ہے ۔ اور بیوی کا یا اور کسی چیز کا تصور کیا گیا اور ان کی محبت دل میں جم گئی تو بعد ازالۂ خطرات کے پھر اس محبت کو بھی نکالنا پڑے گا۔ مشقت دوہری ہوجائے گی ۔اور تصور شیخ سے اگر شیخ کی محبت دل میں جم گئی تو اس کے نکالنے کی ضرورت نہ ہوگی ۔ بلکہ وہ تو جتنی بھی زیادہ ہوگی تعلق مع اﷲ میں اسی قدر نافع ہوگی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اور چیزوں کی محبت تو کسی نفسانی غرض سے ہوتی ہے اور شیخ کے ساتھ محبت کسی نفسانی غرض سے نہیں ہوتی بلکہ محض خدا تعالیٰ کے علاقہ سے ہوتی ہے ۔ اور خدا تعالیٰ کے علاقہ سے کسی کے ساتھ محبت کرنا یہ درحقیقت خدا ہی کے ساتھ محبت ہے ۔ دیکھو اگر ہماری وجہ سے کوئی ہماری اولاد یا متعلقین کے ساتھ محبت کرے تو اس کو ہم اپنی محبت سمجھتے ہیں ۔ اسی طرح شیخ سے چونکہ خدا تعالیٰ کے علاقہ سے محبت ہوتی ہے تو وہ حضرت حق ہی کی محبت ہے جو تعلق مع اﷲ میں حاجب نہ ہوگی بلکہ معین ہوگی ۔
اس لئے صوفیاء نے ازالۂ خطرات کے واسطے تصور شیخ کو تجویز کیا اور یہاں سے معلوم ہوگیا کہ ’’لا الہ الا اﷲ‘‘(اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں)میں جو غیر اﷲ کی نفی کی جاتی ہے تو یہاں نفی غیر سے منطقی غیر مراد نہیںتاکہ نفی محبت