کہ اس مدرسہ کا کوئی تعلیم یافتہ کم از کم دس روپے ماہوار سے محروم نہ رہے گا ۔اتنی آمدنی اس کو ضرور ملے گی ۔
مولانا بہت خوش ہوئے اور اپنے مجمع میں اس الہام کو بیان فرمایا کہ حق تعالیٰ نے اس مدرسہ کے طلباء کے لیے کم از کم دس روپے ماہوار کا ذمہ لیا ہے ۔ بس اب یہاں کا پڑھا ہوا بھوکا نہ رہے گا۔ اس کو سن کر ایک مولوی صاحب نے کہا کہ واہ مولانا صاحب! سستے ہی راضی ہوگئے ۔
اسی طرح حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے ارشاد پر بھی شاید کسی کو شبہ ہو کہ آپ سستے ہی راضی ہوگئے کہ بس ہمارے لیے علم ہے اور جاہلوں کے لیے مال ہے ہم اس پر راضی ہیں تو صاحب جس شخص کو علم کی قدر معلوم ہے وہ تواس تقسیم پر ضرور ہی راضی ہوگا کیونکہ یہ ایسی دولت ہے جس کے سامنے ہفت اقلیم بھی کوئی چیز نہیں ؎
مبیں حقیر گدایانِ عشق را کیں قوم
شہانِ بے کم خسروانِ بے کلہ اند
( گدایان شق کو حقیر نہ سمجھو کیونکہ یہ لوگ شاہانِ بے تخت وتاج ہیں)
میں سچ کہتا ہوں کہ علم میں علاوہ رضائِ حق کے لذّت بھی ایسی ہے کہ جب کوئی علم جدیدحاصل ہوتا ہے تو ایسی مسرّت ہوتی ہے کہ سلاطین کو عمر بھر بھی نصیب نہں ہوتی اسی لیے کہتے ہیں ؎
در سفالیں کاسۂ رنداں بخواری منگرید
کایں حریفاں خدمت جام کہاں بیں کردہ اند
( مٹی کے پیالہ میں رندوں کو ذلّت سے مت دیکھو اس لئے کہ کہ انہوں نے جامِ جہاں بیں کی خدمت کی ہے )
بہر حال اہل علم کے پاس اتنا مال نہیں ہے کہ دور دراز کے سفر کر کے جائیں اور اتنی مدت کے لئے اہل وعیال کو نفقہ دے جائیں۔
تبلیغ کی صورت
تو اب تبلیغ کی صورت یہ ہے کہ جن مسلمانوں کے پاس مال ہے وہ مال جمع کریں اور علماء سے کہیں کہ سفر خرچ اور اہل وعیال کے نفقہ کا اس رقم سے انتظام کیجئے اور تبلیغ کے لیے جائیے مگر آج کل تو حالت یہ ہے کہ دین کا جو کام ضروری ہو وہ بھی سب مولویوں کے ذمہ اور جو الزام ہو وہ بھی سب ان پر جیسے انوری نے کہا ہے ؎
ہر بلائے کز آسمان آید
گرچہ بر دیگر قضا باشد
بر زمیں نا رسیدہ می پرسد
خانۂ انوری کجا باشد
( جو بلا آسماں سے نازل ہوئی ہے اگرچہ دوسرے ہی پر مقدر ہو بغیر زمین پر پہنچے ہوئے دریافت کرتی ہے کہ انوری کا گھر کہاں ہے )