Deobandi Books

العلم و الخشیۃ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

13 - 37
مشکل از تو حل شود بے قیل و قال
(آپ ایسے بابرکت ہیں کہ آپ کی ملاقات ہی ہر سوال کا جواب ہے بلا شبہ آپ سے ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے )
ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ بزرگوں کی صورت دیکھتے ہی اشکالات رفع ہوگئے ۔ بعض دفعہ بزرگوں کے پاس اس قصد سے گئے کہ ان سے اس اشکال کا جواب پوچھیں گے مگر چہرے پر نظر پڑتے ہی اشکال خود بخود حل ہوگیا۔ بلکہ میں ترقی کر کے کہتا ہوں کہ بزرگوں کے تصور سے بھی نفع ہوتا ہے چنانچہ یہی اصل ہے مسئلہ تصور شیخ کی جو صوفیاء کرام بتلایا کرتے تھے مگر لوگوں نے بعد میں اس کے اندر غُلو کرلیا ۔ اسی لیے مولانا شہید ؒ نے اس سے منع فرمایا ۔ مگر وہ مطلق تصور کو منع نہیں کرتے بلکہ اس خاص تصور کو منع کرتے ہیں جو عوام میں اس وقت رائج تھا ۔ اور اگر کہیں کہ اس کے کلام میں اطلاق ہو تو وہ اطلاق ایسا ہوگیا جیسے آج کل ہم کہہ دیتے ہیں کہ رہن رکھنا حرام ہے حالانکہ اس جواز ’’فَرِھٰنٌ مَقْبُوْضَۃٌ‘‘ (سو اطمینان کا ذریعہ )رہن رکھنے کی چیزیں ہیںجو صاحب حق کے قبضہ میں دے دی جائیں گی) میں منصوص ہے مگر مراد یہ ہے کہ رہن متعارف حرام ہے جس میں انتفاع بالمرہون کی شرط ہوتی ہے ۔ایسے ہی مولانا شہیدؒ کے کلام میں مطلق تصور سے وہ خاص تصور مراد ہے جو اہل غلومیں اس وقت رائج تھا ۔بعض لوگ واقعی اس میں حد سے بہت آگے بڑھ گئے ہیں ۔
چنانچہ ایک شخص نے مجھ سے پوچھا کہ تصور شیخ کیسا ہے ؟ میں نے جواب دینے سے پہلے پوچھا کہ تم تصور شیخ کا مطلب کیا سمجھتے ہو ؟ کہا! خدا تعالیٰ کو پیر کی صورت میں سمجھنا ۔ میں نے کہا یہ تو صریح شرک ہے ۔ اسی تصور کو مولانا شہیدؒ نے منع فرمایا ہے ۔جس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے اس کے ابطال میں اس آیت سے تمسک کیا ہے ۔
مَا ھٰذِہِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْ أَنْتُمْ لَھَا عٰکِفُوْنَ
(یہ کیا واہیات مورتیں ہیں جن کی عبادت پر تم جمے بیٹھے ہو)
اور یہ آیت مشرکین ہی کے متعلق ہے باقی مطلق تصور کو وہ حرام نہیں کہتے ورنہ وہ شاہ ولی اﷲ صاحب کا بھی صراحۃً رد کرتے ۔ کیونکہ شاہ صاحب نے القول الجمیل میں تصور شیخ کا مسئلہ لکھا ہے اور جن کا نام مولوی اسمٰعیل شہید ہے وہ کسی کی للو پتو کرنے والے نہ تھے ۔بڑے صاف تھے ۔ اگر وہ مطلق تصور کو سمجھتے تو اس کی پرواہ نہ کرتے کہ شاہ ولی اﷲ صاحب نے اس کو جائز لکھاہے ۔بلکہ بے دھڑک ان کا بھی رد کردیتے کہ اس مسئلہ میں ان سے تسامح یا غلطی ہوئی ہے مگر ان حضرات کا انہوں نے بالکل رد نہیں کیا۔ معلوم ہوا کہ نفس تصور کو وہ بھی جائز سمجھتے تھے ہاں غلو کو حرام کہتے تھے ۔
پس اس مسئلہ میں آج کل دو قسم کی کوتاہیاں ہو رہی ہیں ۔ایک تو یہ کہ بعض نے 
Flag Counter