Deobandi Books

العلم و الخشیۃ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

21 - 37
کا ذکر ہو رہا ہے ۔ باقی مطلق عشق کے متعلق ایک حدیث بھی مشہور ہے 
من عشق فکتم وعف فھو شھید
(جو عشق میں مبتلا ہو اور اس کو چھپایااور عفت اختیار کیا پس وہ مرگیا وہ شہید ہے )
مگر محدثین نے اس میں کلام کیا ہے بعض نے اس کو موضوع بھی کہا ہے مگر صاحب مقاصد کی رائے وضع کی نہیں ۔ لیکن وضع کی دلیل میں جو یہ کہا ہے کہ لفظ عشق قرآن وحدیث میں کہیں نہیں آیا اس لئے یہ موضوع ہے یہ وجہ تو صحیح نہیں کہ اس لیے کہ حدیث میں نہ آنا اس شخص کو کہاں مسلم ہے جو اس کو حدیث کہتا ہے 
دوسرے ممکن ہے کہ اس میں روایت بالمعنی ہوگئی ہو ۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے کلام میں لفظ عشق نہ ہو ۔ راوی نے معنی سمجھ کر اس کو بالمعنی نقل کردیا اور روایت بالمعنی جائز ہے ۔ ہاں اگر سند میں کلام ہو تو اور بات ہے ۔ یا کسی کا ذوق اسے موضوع بتلاتا ہو گو اس کا ذوق دوسروں پر حجت نہ ہوگا مگر ہم اس سے نزاع نہ کریں گے کیونکہ ذوقیات محل نزاع نہیں لیکن قواعد سے اس کا مضمون بے اصل نہیں معلوم ہوتا ۔ کیونکہ اس میں عشق سے مراد وہ عشق عمد نہیں ہے جس کو ا ز خود اپنے سر لیا جائے جیسا کہ سعدی فرماتے ہیں  ؎
سوم باب عشق ست ومستی شور
نہ عشقے کہ بندند بر خود بزور
( تیسرے باب میں عشق اور مستی وشور کا بیان ہے نہ وہ عشق کہ لوگ اپنے اوپر زبردستی مسلط کرتے ہیں )
بلکہ عشق غیر اختیاری مراد ہے جس کا حدوث بھی بے اختیار ہو اور بقا میں بھی اختیار سے کام نہ لیا گیا ہواور اس کے ساتھ عفت بھی ہو ۔ یعنی نہ قصداً اسے دیکھے نہ قصداً اس کا تصور کرے نہ قصداً اس کے پاس جائے کیونکہ اس روایت میں ’’فعف‘‘ (عفت اختیار کی) تحید صراحۃً موجود ہے اوریہ افعال قصدیہ خلاف عفت ہیں ۔ تو اب صرف عشق قلب غیر اختیاری کا درجہ رہ گیا۔
اور ظاہرہے کہ یہ ایک مرض ہے جیسا کہ دق ایک مرض ہے اور حمی میں شہادت کا وعدہ منصوص ہے (نقلہ الشامی عن السیوطی فی رد المحتار۔ شامی نے اس کو سیوطی سے رد المحتارمیں نقل کیا ہے) تو عشق کے لیے بھی اگر شہادت کا وعدہ ہو تو کیا بعید ہے ۔ کیونکہ واقعی عشق کا الم دق کے الم سے بہت زیادہ ہے اس میں اگر عفت وکتمان سے کام لیاجاوے تو واقعی یہ بڑی ہمت وجوانمردی کا کام ہے ۔ اس میں تلوار کی ضرب سے زیادہ ضربیں لگتی ہیں ۔ یہ سب کلام تھا عشق مخلوق میں۔
علم مطلوب
لیکن ہر حال میں یہاں علم اشقی سے یہ عشق مراد نہیں کیونکہ اس عشق کا کوئی 
Flag Counter