علم خاص تھوڑا ہی ہے جس کو حاصل کیا جائے ۔ یہ تو امر غیر اختیاری ہے جو اختیار سے حاصل نہیں ہوسکتا ۔ اور اگر اختیار سے حاصل کیا جائے تو مذموم ہے ہاں عشق خدا کا علم مراد ہے جو حدیث وقرآن وفقہ میں موجود ہے اس کے غیر کو کہتے ہیں کہ
مابقی تلبیس ابلیس شقی
( جو باقی رہا وہ بد بخت شیطان کی تلبیس ہے )
مابقی میں کیارہا؟ شاید آپ کہیں گے کہ یہ منطق وغیرہ ہوگی ۔ نہیں صاحب! اگر علوم خادمہ کو بحیثیت خادم کے رکھا جائے تو التابع فی حکم المتبوع( تابع متبوع کے حکم میںہوتا ہے ) کے قاعدہ سے وہ بھی علوم دینیہ ہی میں داخل ہیں ۔ جیسے بادشاہ کا خادم وغلام اگر اس کے ساتھ ہو تو وہ بھی متبوع کے حکم میں ہوتا ہے کہ جیسے بادشاہ کی خاطر کی جاتی ہے ایسے ہی اس کے تعلق سے غلام کی بھی خاطر کی جاتی ہے بشرطیکہ خادم ہو باغی نہیں۔
پس معقول سے اگراثبات دین وفہم شرع میں کام لیاجائے تو یہ بھی دین ہے اور ابطال شرع کا کام لیا جائے تو پھر باغی ہے اور تلبیس ابلیس شقی میں داخل ہے ۔
نیز دیکھئے اگر کوئی پوچھے کہ اس کھانے میں کتنی لاگت لگی ہے تو جہاں آٹا اور گھی اور دال میں شمار کرتے ہیں وہیں کھانے کی میزان میں لکڑیاں اپلے بھی شمار ہوتے ہیں ۔ چنانچہ حساب میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لکریاں چار آنے کی اور اپلے دو آنے کے ۔ تو کیا اب کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ صاحب !اپلے کیا کھائے جاتے ہیں جو ان کو حساب میں شمار کیا گیا ؟ ہرگز نہیں ۔ اور اگر کوئی کہے تو ہرعاقل اس کو یہی جواب دے گاکہ اپلے کھائے تو نہیں جاتے مگر کھانے کی خدمت کرتے ہیں ۔اسی طرح معقول وفلسفہ کو سمجھو کہ اگر ان کو دین کے کام میں صرف کیا جائے تو ان کا وہی حال ہے جو کھانا پکانے میں اپلوں کا حال ہے کہ وہ بھی دین کے ساتھ شمار ہوں گے ۔ جیسے اپلے کھانے کے حساب میں شمار ہوتے ہیں اور اگر ان کو دین کے کام میں نہ لگایا جائے بلکہ انھی کو مقصود بنا لیاجائے تو اس کی ایسی مثال ہوگی جیسے کوئی اپلے کھانے لگے ۔
بہر حال مَیں یہ کہہ رہا تھا کہ علم مطلوب وہ ہے جس کے ساتھ دل میں اثر بھی ہو اسی کوکہتے ہیں ؎
علم چوں بردل زنی یارے شود
علم چوں بر تن زنی مارے شود
( علم اگر دل میں اثر کرے وہ معین ہوتا ہے اور علم اگر جسم پر اثر انداز ہو تو وہ سانپ یعنی مہلک ہوتا ہے )
فخر وفضیلت
تو بتلائیے کہ ہمیں جو اپنے علم پر ناز ہے اور خشیت سے خالی ہیں تو یہ ناز بجا ہے یا بے جا۔ صاحب! پہلے خشیت تو پیدا کرو شاید تم یہ کہو کہ اچھا تو کیا بعد