Deobandi Books

العلم و الخشیۃ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

10 - 37
صلی اﷲ علیہ وسلم کے عاشق تھے اور آپ جانتے تھے کہ میرے بعد یہ میری صورت کو ترس جائیں گے جس سے ان کو بہت بے چینی ہوگی ۔ اس لیے آپ نے اپنے بال تقسیم فرمادیئے تاکہ ان کو دیکھ کر کسی قدر تسلی ہوجایا کرے ۔ جس نے عشق کا چرکہ کھایا ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ محبوب کے بعد اس کی نشانیوں کو دیکھ کر کس قدر تسلی ہوتی ہے ۔ عشاق کی تو یہ حالت ہے کہ وہ اس خبر ہی سے مسرور ہیں کہ دنیا میں آپ کی زلف کا موئے مبارک موجود ہے گو ہم نے دیکھا بھی نہیں   ؎
مرا از زلف تو موئے بسند ست
ہوس را رہ مدہ بوئے بسند ست
(یعنی تیری زلف کا ایک بال بھی مجھے بہت ہے نہیں بلکہ اس کی خوشبو ہی کافی ہے )
یہ شعر اسی موقع پر شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے لکھا ہے کہ ہم نے گو موئے مبارک کی زیارت نہیں کی مگر خبر تو ملی ہے کہ ہاں دنیا میں موجود ہے بس ہم کو تسلی کے لیے یہی کافی ہے ۔
تو بتلائیے عشاق کی تسلی کرنا یہ کون سی انسان پرستی ہے اس کو پرستش سے کیا تعلق ۔ آخر ایک دوست سفر میں جاتے ہوئے جو اپنے دوستے سے انگوٹھی یا اور کوئی نشانی مانگتا ہے اور وہ نشانی سے دیتا ہے تو کیا وہ اس کی پرستش کرتا ہے ہرگز نہیں ۔ پس اسی قبیل سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ فعل تھا اس پر اعتراض کیوں ہے ؟
یہ تو جواب عاشقانہ مزاج پر ہے اور دوسرا جواب یہ ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس واقعہ میں اتفاق کو سنبھالا تھا کیونکہ صحابہ آپ کے ایسے عاشق تھے کہ وضو کے پانی پر بھی گرتے تھے اور ہر شخص یہ چاہتا تھا کہ آپ کا چھینٹا میرے اوپر گرے ۔ تو وہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے بالوں کوکب چھوڑتے جو کہ اجزاء جسم تھے اگر آپ تقسیم نہ فرماتے تو عجب نہ تھا کہ تقابل کی نوبت آجاتی اس لئے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود ہی تقسیم فرما دیئے ۔ یہ جواب اس معترض کے مذاق پر ہے کیونکہ یہ لوگ اتحاد واتفاق کو دین ایمان سمجھتے تھے (گو اس کی توفیق کبھی نہ ہو)
بھلاحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نعوذ باﷲ انسان پرستی کی تعلیم دیتے ۔ حالانکہ دنیا کو توحید کا علم ہی آپ ؐ کے ذریعہ سے ہوا آپ ؐ کی بعثت سے پہلے تمام اہل ادیان شرک میں مبتلا تھے کوئی توحید کو جانتا بھی نہ تھا ۔
پھر اس معترض نے ایک واقع کو تو دیکھ لیا اور دوسرے واقعات نہ دیکھے جن سے اس واقعہ کی وضاحت ہوجاتی ۔
قبر پرستی
ایک بار صحابہؓ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اہل فارس 
Flag Counter