شرائع سابقہ میں جائز تھا ۔ لیکن حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے واسطے اس کو بھی گوارا نہ فرمایا اور غیر اﷲ کے لیے سجدہ کو مطلقاً حرام کر دیا ۔ تو جس ذات نے اپنے لیے ایک خاص طرز کی تحیت کو بھی پسند نہ کیا ہو کیا نعوذ باﷲ آپؐ ایسے ہوتے تو پھر صحابہ کو جب کہ وہ خود سجدہ کرنا چاہ رہے تھے کیونکر منع کردیتے ؟ جو شخص اپنی پرستش کرانا چاہتا ہے وہ تو ایسے موقع کو غنیمت سمجھتا ہے کہ مجھے کہنے کی بھی ضرورت نہ پڑی معتقدین خود ہی درخواست کررہے ہیں مگر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے نہ زندگی میں اس کی اجازت دی نہ بعد وفات کے اجازت دی ۔ چنانچہ عین وصال کے قریب ارشاد فرمایا ۔
لعن اﷲ الیھود والنصارٰی اتخذوا قبور انبیائھم مساجد
خدا تعالیٰ یہود ونصاریٰ پر لعنت کریں جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ۔ اسمیں صحابہ کو تنبیہ تھی کہ تم اپنے نبیؐ کی قبر سے ایسا معاملہ نہ کرنا ۔ نیز حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے حق تعالیٰ سے بھی دعا کی ہے۔
اللھم لا تجعل قبری وثنا یعبد
(اے اﷲ!میری قبر کو بت نہ بنایا جائے جس کی پرستش ہو)
تو اس معترض کم بخت نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ تعلیم نہ دیکھی جس سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم مذاق عبدیت کا پت چلتا ہے ۔ بس ایک تقسیم شَعر کا واقعہ دیکھ لیا ۔اور اپنی طرف سے اس کی وجہ ترش لی کہ اس سے انسان پرستی کی تعلیم مقصود تھی ۔
ارے ظالم ! جس شخص کا یہ مذاق ہوتا ہے اس کے دوسرے احوال واقوال اس کے معارض نہیں کرتے ۔ مگر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے تمام احوال واقوال اس قصد کے صریح معارض ہیں پھر یہ کہنا کیونکر صحیح ہے کہ آپ ؐ کا یہ قصد تھا کہ کیا اس فعل کی وجہ کچھ اور نہیں ہو سکتی چنانچہ میں نے بتلا دیا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس فعل میں سیاسی مصلحت بھی تھی اور عاشقانہ مصلحت بھی تھی ۔ انسان پرستی سے اس کو کچھ بھی تعلق نہیں۔یہ گفتگو درمیان میں آگئی تھی ۔ مَیں یہ کہہ رہا تھا کہ قلب کا اثر انسان کے کلام اور لباس تک میں ظاہر ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل اﷲ کے تبرکات میں اثر ہوتا ہے اور صحبت میں اس سے زیادہ اثر ہوتا ہے ؎
یک زمانہ صحبتِ با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
(یعنی اﷲ والوں کی تھوڑی دیر کی صحبت بھی سوسال کی بے ریا عبادت وطاعت سے بہتر ہے )
یہ تو صحبت کا ذکر تھا اور دیدار کے متعلق فرماتے ہیں ؎
اے لقائے تو جواب ہر سوال