Deobandi Books

العلم و الخشیۃ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

29 - 37
اور میں کہتا ہوں کہ ’’ خانۂ مولوی کجا باشد‘‘(مولوی کا گھر کہاں ہے )
چنانچہ اس تبلیغ کے بارے میں عام طور سے اخباروں میں لکھا جاتا ہے اور زبان سے بھی کہا جاتا ہے ہمارے علماء کی غفلت کا نتیجہ ہے کہ آج اتنے مسلمان مرتد ہوگئے اور اتنے مسلمان احکام سے بالکل ناواقف ہیں ۔ علماء نے ان کی بالکل خبر نہیں لی ۔اور جب کہا جاتا ہے کہ واقعی ان مسلمانوں کی خبر لینا چاہئے تو ہر شخص یہ کہہ کر الگ ہوجاتا ہے کہ یہ کام مولویوں کا ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ جیسے ان مسلمانوں سے بے خبری کا الزام آپ نے مولویوں پر رکھا ہے کچھ آپ کا بھی اس میں قصور ہے یا نہیں ؟ صاحب مولوی تو اتنا کر سکتے ہیں کہ ان لوگوں کو جا کر سمجھا دیں ۔ مگر یہ تو بتلائیے کہ مولوی ریل کا کرایہ کہاں سے لائیں اور جتنے دن تک تبلیغ میں رہیں اس زمانہ کے لیے اہل وعیال کو خرچ کہاں سے دیں ۔ اس کی صورت صرف یہ ہو سکتی ہے کہ آپ روپیہ دیں اور یہ سفر کریں ۔ باقی یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ چلیں بھی یہی اور لدیں بھی یہی اور گھر والوں کو بھوکا ماریں بھی یہی ۔ افسوس یہ ہے کہ آج کل عوام اور رؤسا سوائے رائے دینے کے اور کچھ نہیں کرتے ۔ بس جہاں کوئی ضرورت پیش آئی یہ اتنا کہہ کر الگ ہو گئے کہ علماء کو یوں کرنا چاہئے ۔ اس طرح کرنا چاہئے ۔ اور جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ علماء یہ کام کیوں کر کریں ۔ اس کے لیے روپے کی ضرورت ہے تو اس وقت سب خاموش ہوجاتے ہیں۔
صاحبو! کام کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے چندہ جمع کرکے رقم کا انتظام کر کے پھر مولویوں سے کہو کہ مولانا تبلیغ کے لیے ہمارے پاس اتنا روپیہ جمع ہے آپ کوئی مبلّغ ہم کو دیں۔ پھر اگر وہ کام کرنے والانہ دیں تو بے شک ان کا قصور ہے۔
چندہ اور علماء
باقی یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ مولوی ہی کام کریں اور وہی روپیہ کا انتظام کریں ۔ علماء کو تو کسی کام کے لیے بھی چندہ نہ کرنا چاہئے اے علماء ! خدا کے لیے تم چندہ کرنا چھوڑ دو۔ تمہارے منہ سے تو چندہ کا لفظ اچھا لگتا ہی نہیں۔ بس تمہاری زبان سے یہ اچھا لگتا ہے ۔
لَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مَالاً۔ وَ مَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍاِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
( میں تم سے اس تبلیغ پر مال نہیں مانگتا اور نہ اس پر تم سے اجرت طلب کرتا ہوں ۔ میری اجرت تو اﷲ رب العالمین ہی کے ذمہ ہے )
اس چندہ کی بدولت لوگ علماء سے بھاگنے لگے ان کی صورت سے بھی ڈرنے لگے ۔چنانچہ ایک سب جج جن کا لباس مولویانہ ہوتا تھا کسی نئی جگہ بدل کر گئے اور محض خوش اخلاقی کے سبب کسی رئیس سے ملنے گئے تو وہ ان کو دیکھ کر گھر میں گھس گئے ۔ بعد میں نوکر نے اطلاع دی کہ سب جج صاحب آپ سے ملنے کو آئے ہیں۔ تب وہ باہر آئے اور کہا معاف فرمائیے گا ۔ میں آپ کے لباس سے یہ سمجھا تھا کہ کوئی مولوی صاحب چندہ مانگنے آئے ہیں۔

Flag Counter