Deobandi Books

العلم و الخشیۃ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

25 - 37
کتابیں پڑھ لینے سے خشیت بھی خود بخود حاصل ہو جاتی ہے مستقل طور پر اس کے حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ۔
میں کہتا ہوں کہ محض کتابیں پڑھنے سے جو خشیت حاصل ہوتی ہے اس کی ایسی حالت ہے جیسے ایک منہار چوڑیوں کی گٹھڑی باندھے ہوئے لیے جارہا تھا ۔ ایک گاؤں والا ملا اور اس میں لاٹھی مار کر پوچھا کہ اس میں کیا ہے ؟ (دیہاتیوں کی عادت ہے کہ یہ لاٹھی ہی سے بات کیا کرتے ہیں ) منہار نے جواب دیا کہ اس میں ایسی چیز ہے کہ ایک کھودا اور ماردو تو کچھ بھی نہیں۔
ایسی ہی وہ خشیت ہے جو کتابیں پڑھنے سے حاصل ہوتی ہے کہ شیطان کی ذرا سی ٹھیس لگانے سے شکستہ ہوجاتی ہے اور دوسری ٹھیس میں کچھ بھی نہیں رہتی ۔ اور خشیت مطلوبہ وہ ہے جو معاصی سے حجاب ہوجائے جو شیطان کی ہزار ٹھیس لگانے سے بھی شکستہ نہ ہو۔اب تو معلوم ہوگیا کہ تحصیل علم کے بعد تحصیل خشیت کی مستقل طور پر ضرورت ہے تاکہ اس کو استحکام ہوجائے ( مگر آج کل اہل علم اسی کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں ، خانقاہ والوں پر اعتراض کرتے ہیں، ان کو نکمّا اور بے کار بتلاتے ہیںاور کہتے ہیں کہ یہ وقت خانقاہوں میں بیٹھنے کا نہیں ہے ان کو بند کردو ۔ سبحان اﷲ م جو درس گاہ اصل مقصود کی تعلیم کے لئے موضوع ہے وہ تو بے کار ہوجائے ۔ اور جو درس گاہ غیر مقصود کی تعلیم کے لیے ہیں وہ باکار ہوں )
میرے بیان کا حاصل یہ تھا کہ جس کو تم مقصود بالذات سمجھ رہے ہو یعنی تعلیم وتعلم وہ مقصود بالذات نہیں ہے محض طریق ہے اور مقصود بالذات دوسری چیز ہے یعنی وہ علم جس سے خشیت ہو ۔
عوام کی تعلیم
اب میں تنزل کرکے کہتا ہوں کہ اچھا تم جس تعلیم کو مقصود بالذات سمجھ رہے ہو یہ تو بتلاؤ کہ اسی کا کیا حق ادا کر رہے ہو ۔ چنانچہ میں پوچھتا ہوں کہ تعلیم کس کی مقصود ہے ؟ تم کہو گے ، طلباء کی ۔ میں کہوں گا کہ تم نے اس مقصود کا بھی پورا نہیں کیا کیونکہ طلباء کی دو قسمیں ہیں ۔ خواص اور عوام ۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ تم صرف خواص کو تعلیم دیتے ہو عوام نے آخر کیا خطا کی ہے ؟ ان کو آپ کیوں نہیں پڑھاتے ۔ شاید تم یہ کہو گے کہ صاحب یہ عوام میزان منشعب کیسے پڑھیں گے ؟ ان کو تو ’’الف، با‘‘ کی بھی خبر نہیں۔
میں کہتا ہوں کہ عوام کی میزان دوسری ہے تم عوام کو ان کی میزان پ)ڑھاؤ یعنی ان کو کلمہ سکھلاؤ ، پاکی ناپاکی کا طریقہ بتلاؤ ۔نماز سکھلاؤ اور ضروری ضروری احکام سناؤ ۔ اور جوان میں اردولکھنا پڑھنا فانتے ہوں ان کو دینیات کے اردو رسائل پڑھاؤ ۔ مگر اردو ہی میں پڑھانا ،ولایتی زبان میں تقریر نہ کرنا کیونکہ بعضے مولویوں کو اردو میں بھی عربی لغات کے ٹھونسنے کا مرض ہوتا ہے ۔

Flag Counter