Deobandi Books

العلم و الخشیۃ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

2 - 37
حتّی کہ عقائد محضہ توحید وغیرہ بھی جب تک کہ ان کے مقتضا پر عمل نہ ہو درجۂ حال میں نہیں پہنچتے اور درجۂ کمال اعتقاد کا وہی حال کا درجہ ہے ۔ 
پس جو لوگ اپنے کو علم سے متصف سمجھتے ہیں وہ بھی اس کوتاہی میں مبتلا ہیں کہ انہوں نے اپنے علم کے مقتضا پر عمل نہیں کیا تو وہ بھی اس تعلق سے غافل ہیں ۔ مگر سب ایسے نہیں ہیں ۔بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے کو خاص سمجھتے ہیں اور واقع میں وہ خاص نہیں ہیں (بلکہ بمعنی دیگر خواص ہیں) کیونکہ عامی اور خاصی امور اضافیہ ہیں جو لوگ اپنے کو خاص سمجھتے ہیں خاص کامل کے اعتبار سے وہ بھی عامی ہی ہیں ۔ پس اب یہ شبہ رفع ہوگیا کہ اس مضمون کا بیان تحصیل حاصل ہے ۔بلکہ معلوم ہوگیا کہ جو چیز حاصل ہے وہ مقصود نہیں اور جو مقصد ہے وہ حاصل نہیں ۔ حاصل تو علم غیر تام ہے اور مقصود علم تام ہے ۔ پس اس وقت کے بیان میں تحصیل غیر حاصل ہے مگر ترکیب توصیفی کے ساتھ نہیں بلکہ ترکیب اضافت کے ساتھ ۔ بہر حال اس بیان کی ضرورت ثابت ہوگئی ۔
طریق اصلاح
رہا یہ سوال کہ جولوگ واقع میں خواص ہیں ان کی نسبت سے تو یہ بیان تحصیل حاصل ہی رہا ۔ اس کا سیدھاجواب یہ ہے کہ وہ میرے مخاطب نہیں ہیں بلکہ مَیں خود ان کا محتاج ہوں کہ وہ مجھے طریقۂ اصلاح ارشاد کریں ۔ باقی جن کے لیے یہ بیان ہو رہا ہے جو میرے مخاطب ہیں ان کے لیے تو تحصیل غیر حاصل ہے ۔جن میں مَیں خود بھی داخل ہوں ۔ میں اپنے کو بھی اس بیان کا مخاطب کرتا ہوں جیسے قرآن میں ایک مؤمن کی حکایت کی گئی ہے ۔
وَمَا لِیَ لَا أَعْبُدُ الَّذِیْ فَطَرَنِیْ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ
یعنی اور میرے پاس کون سا عذر ہے کہ میں اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھ کو پیدا کیا ہے اور تم سب کو اس کے پاس لوٹ کر جانا ہے ۔
جس میں اس نے امر توحید کا پنے کو بھی مخاطب کیا ہے سو یہ شبہ بھی رفع ہوگیا کہ اپنے کو مخاطب کرنا کیسا ؟کیونکہ اس کی نظیرقرآن میں موجود ہے ۔ دوسرے اس کی بابت میں ایک حقیقت بیان کرتا ہوں کہ جب مجھے کسی عمل میں کم ہمتی ہوتی ہے تو میں اس کے متعلق مجمع میں ایک عام مضمون بیان کر دیتا ہوں ۔ اس سے خود میری ہمت بھی قوی ہو جاتی ہے اس میں راز یہ ہے کہ جس عمل کے متعلق عام بیان ہوتا ہے تو قاعدہ ہے کہ بیان میں اس کا پورا اعتناء ہوتا ہے ۔ مخاطبین پر اچھی طرح اس کی ضرورت ظاہر کی جاتی ہے ۔ تو طبعاً متکلم کے دل میں اس سے یہ اثر پیدا ہوتا ہے کہ جس بات کا ہم دوسروں کو تاکید کے ساتھ امر کر رہے ہیں سب سے پہلے خود بھی اس پر عمل کرنا چاہئے اس سے فی الجملہ ہمت بڑھتی ہے ۔ پھر مخاطبین میں کوئی بزرگ اور نیک آدمی بھی ہوتا ہے ۔ اگر بیان سے اس کا دل خوش ہو گیا اور اس نے دل سے دعا دے دی اور وہ 
Flag Counter