مذکریت اور قسم کی ہے اس میں عبادت کا اندیشہ نہیں اور تصویر رکھنے میں عبادت کا اندیشہ ہے ۔ چنانچہ دنیا میں بت پرستی اسی تصویر کے رکھنے سے پھیلی ہے ۔
غرض جب یہ بات محقق ہوگئی کہ قلبی کیفیا ت کا اثر کلام اور لباس تک میں ظاہر ہوتا ہے تو اب بے دینوں کی کتابوں اور ان کی لباسوں سے احتراز کرنا چاہئے کیونکہ ان کے قلب میں ظلمت ہی پیدا ہوتی ہے گو وہ کیسا ہی تقدس کا دعویٰ کریں اور عمدہ عمدہ مضامین بیان کریں ۔ مگر ان کے دعووں کی یہ حالت ہوگی ؎
و قوم یدعون وصال لیلٰی
ولیلٰی لا تقر لھم بذاک
(لوگ لیلیٰ (محبوب حقیقی) کے وصال کا دعویٰ کرتے ہیں اور محبوب ان کے لئے اس کا اقرار نہیں کرتا)
اور دنیدار کی باتیں دنیوی معاملات کے متعلق بھی نور سے خالی نہ ہوں گی تجربہ کرکے دیکھ لو ۔ یہ بات چھپی ہوئی نہیں ہے ۔ ہاں یہ شرط ہے کہ امتحان کرنے والا سلیم الطبع ہو۔
صاحبو! اگر دوبھائی ایک شب میں اپنی بیویوں کے پاس جائیں جن میں ایک مرد ہے اور ایک نامرد تو صبح کو دونوں کی صورت اور بات چیت سے تاڑنے والے تاڑ جائیں گے کہ کس کو تو وصال نصیب ہوا ہے اور کون محروم رہا۔
خشیت کا اثر
خدا کے بندو! اتنی اتنی باتیں تو چھپتی نہیں ہیں اور خدا کی خشیت جس سے پہاڑ ہل جاتے ہیں چھپی رہ جائے گی ۔ کہ آپ کے دل میں خشیت ہو اور اعمال میں اس کا ظہور نہ ہو۔ یہ ہرگز نہیں ہوسکتا ۔مگر بعض لوگ دھوکا میں ہیں ۔ اپنے آپ کو صاحب نسبت اور صاحب خشیت سمجھتے ہیں حالانکہ وہاں پتہ بھی نہیں ۔ شاید انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ تصور میں حصول اشیاء بانفسہا فی الذہن ہوتا ہے ۔ اور نسبت وخشیت کا تصور ہمیں حاصل ہے تو ہم واقعی صاحب خشیت وصاحب نسبت ہوگئے اگر یہی حصول اشیاء بانفسہا ہے ۔ تو جو شخص پہاڑ کا تصور کرتا ہے چاہئے کہ اس کے ذہن میں پہاڑ بعینہ موجود ہو ۔پھر اس تصوت سے اس کا ذہن منشق کیوںنہیں ہوا کہ اتنی بڑی چیز ذرا سی ذہن میں کیوں کر سما گئی ۔یہ تو اہل ظاہر کی کوتاہی تھی کہ وہ محض تصور خشیت کو حصول خشیت سمجھے ہوئے ہیں۔
اب میں مشائخ کے اترے پترے کھولتا ہوں ۔ ان میں بہت لوگ دھوکا میں ہیں ۔کہ ایک شخص کو مقامات کا ذوق حاصل تھا اس نے حالات وکیفیات بھی دیکھے تھے ۔ مگر ابھی رسوخ نہ ہوا تھا کہ شیخ بن کر بیٹھ گئے ۔ تربیت کا طریق بھی جانتے ہیں اور لوگ ان کے ہاتھ سے کامیاب بھی ہوجاتے ہیں مگر اب کچھ دنوں