تقوی کے انعامات |
ہم نوٹ : |
|
عرض مرتب پیش نظر رسالہ تقویٰ کے انعامات کوئی اصطلاحی وعظ نہیں ہے جوکسی مجمع میں بیان کیا گیا ہوبلکہ یہ مرشد ومولانا عارف باللہ شاہ حکیم محمد اختر صاحب اطال اللہ بقاء ھم وادام اللہ انوارہم کے ارشادات وملفوظات ہیں جو ۲۲ رمضان المبارک ۱۴۱۵ ھ مطابق ۲۲ فروری ۱۹۹۵ء بروز بدھ ساڑھے دس بجے بعد نماز تراویح چند احباب کی آمد پر فرمائے۔خانقاہ امدادیہ اشرفیہ گلشن اقبال کراچی کی مسجد اشرف میں تروایح پڑھنے کے بعد بعض احباب تشریف لاتے ہیں اور حضرت والا دامت برکاتہم حسب عادت شریفہ تشنگان محبت کو اپنے فیضان عشق ومعرفت سے سیراب فرماتے ہیں ؎ درخانہ بند کردن سرشیشہ بازکردن ایسی مجالس عموماً عام مواعظ سے زیادہ نافع ہوتی ہیں کیوں کہ ان میں اکثر سالکین طریق کے لیے ایسے علوم ومعارف بیان ہوجاتے ہیں جو عام مجالس میں نہیں ہوتے۔ اس مجلس میں دوران گفتگو حضرت والا دامت برکاتہم نے قرآن پاک کے حوالوں کے ساتھ بیان فرمایا کہ تقویٰ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کو کیا کیا انعامات عطا ہوتے ہیں اور تحصیل تقویٰ یعنی گناہوں سے بچنے اور گناہوں کو چھوڑنے کے لیے کتنی ہمت کرنی چاہیے کیوں کہ ارتکاب گناہ کے ساتھ کوئی ولی اللہ نہیں بن سکتا اور ترک گناہ سے دل کو جو غم ہوتا ہے اس غم پر دل کو جو حلاوت ایمانی اورتعلق مع اللہ کی ناقابل بیان لذت عطا ہوتی ہے اس کو حضرت والا نے اس دل سوز ودلفریب ودلنواز انداز میں بیان فرمایا کہ یوں محسوس ہورہا تھا کہ ذٰلِکُمُ اللہُ رَبُّکُمْ یہ ہے تمہارا اللہ ۔ علم آں باشدکہ بکشاید رہے راہ آں باشد کہ پیش آید شہے ترجمہ:علم وہ ہے جو اللہ کا راستہ کھول دے اور راستہ وہ ہے جو اللہ تک پہنچادے۔ یوں تو حضرت والا دامت برکاتہم کا ہر بیان آشوب وچرخ وزلزلہ کا حامل،دین کی حقیقت