تقوی کے انعامات |
ہم نوٹ : |
|
اُف کتنا ہے تاریک گناہ گار کا عالَم مَعِیْشَۃً ضَنْکًا کی تفسیر یہی ہے کہ جو شخص گناہ نہیں چھوڑتا اللہ تعالیٰ اس کی زندگی تلخ کردیتے ہیں، ہمیشہ پریشان رہتا ہے۔ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا جملہ اسمیہ ہے اور جملہ اسمیہ دوام و ثبوت پر دلالت کرتا ہے یعنی ایسا شخص دواماً پریشان رہتا ہے، کھاتا ہے کوفتہ لیکن دماغ میں کوفت گھسی ہوئی ہے، ہر وقت کوفت و پریشانی، ذہنی دباؤ اور ڈپریشن، دل بے چین، گناہ بھی کرتا ہے تو گھبرایا ہوا، پریشانی میں، خراب عادت کی وجہ سے کرتا ہے، آخر میں گناہ میں کوئی مزا بھی نہیں آتا لیکن عادت سے مجبور ہوکر کرتا ہے، مگر پریشان بدحواس، بے چین رہتا ہے۔ جس کو مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ اُف کتنا ہے تاریک گناہ گار کا عالَم انوار سے معمور ہے اَبرار کا عالَم گناہ کی ذرا سی دیر کی لذت ہمیشہ کی ذلت کا سبب ہوجاتی ہے، ایسا شخص ایک دن مخلوق میں رسوا و ذلیل ہوجاتا ہے اور جو عزت حاصل تھی ہمیشہ کے لیے ذلت سے بدل جاتی ہے اور زندگی کا چین ختم ہوجاتا ہے۔ احقر کا شعر ہے ؎ لذت عارضی ملی عزت دائمی گئی یہ ہے گناہ کا اثر راحتِ زندگی گئی تقویٰ کا چھٹا انعام۔ پُرلطف زندگی اور دوسری طرف تقویٰ کا انعام کیا ہے؟ فَلَنُحۡیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً 22؎ اگر تم اعمال صالحہ کروگے تو ہم تم کو ضرور ضرور بالطف زندگی دیں گے۔ اللہ کی فرماں برداری پر اللہ کا وعدہ ہے کہ ہم تم کو بالطف زندگی دیں گے اور لام تاکید بانون ثقیلہ سے فرمایا۔ ہماری نالائقی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام فرمایا کہ ظالم تم نفس کی بدمعاشیوں کے چکر میں ہو لہٰذا ہم یہ آیت لام تاکید بانون ثقیلہ سے نازل کررہے ہیں تاکہ تم کو اطمینان ہوجائے کہ واقعی _____________________________________________ 22 ؎النحل:97