تقوی کے انعامات |
ہم نوٹ : |
|
فرشتوں کے بجائے انسان کو شرفِ نبوت عطا ہونے کا سبب فرشتے جانتے ہی نہیں کہ گناہ کیا چیز ہے؟ ان کے اندر صلاحیت ہی نہیں کہ وہ اس کو سمجھ لیں، اسی لیے پیغمبر انسان بھیجا جاتا ہے تاکہ اُمت کے تمام تقاضاہائے بشریت کو سمجھ سکے۔ فرشتے چوں کہ تقاضائے بشریت کے سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، اس لیے اصلاحِ نفوسِ بشریہ کے قابل نہیں ہوتے، ان کو نبی نہیں بنایا جاتا لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس لیے بھیجا ہے کہ تمہارے نفس میں تقاضے ہوں، تم ان کو روکو اور غم اُٹھاؤ تاکہ میدانِ محشر میں پیش کرسکو کہ ہم نے آپ کے لیے بڑے غم اُٹھائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پوچھیں کہ کیا لائے ہو تو کہہ سکو اے اللہ! گناہ کے بڑے تقاضے تھے، پریشان کرتے تھے لیکن آپ کو خوش کرنے کے لیے ہم نے آپ کے راستہ میں بڑے غم اُٹھائے ہیں۔ داغِ دل پیش کرو ؎ میں نے لیا ہے داغِ دل کھوکے بہارِ زندگی اِک گل تر کے واسطے میں نے چمن لٹادیا مولوی کوئی ہیجڑا مخنث نہیں ہوتا، وہ تقویٰ کی برکت سے بہت طاقت ور ہوتا ہے لیکن اللہ کے لیے صبر کرتا ہے ؎ توڑ ڈالے مہ و خورشید ہزاروں ہم نے تب کہیں جا کے دکھایا رُخِ زیبا مجھ کو اللہ کا سچا عاشق کون ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اصلی سالک اور اللہ کا سچا عاشق وہی ہے جو اللہ کے راستہ کا غم اُٹھانا جانتا ہو اور غم اُٹھانے کی ہمت رکھتا ہو۔ خالی نفل پڑھ لینا، نفلی حج و عمرہ کرلینا یہ کمال نہیں ہے، کمال یہ ہے کہ زبردست نمکین شکل سامنے آجائے اور نظر اُٹھاکر نہ دیکھے اور غم اُٹھالے چاہے کلیجہ منہ کو آجائے۔ اگر کلیجہ منہ کو آنے کی مشق ہوجائے اور حسینوں سے نظر بچانے کی توفیق ہوجائے تو ان شاء اللہ اس کو نسبتِ صحابہ نصیب ہوگی۔ ابھی اس کی دلیل پیش کرتا ہوں، کیوں کہ علماء موجود ہیں اس لیے قرآن پاک سے دلیل پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ