تقوی کے انعامات |
ہم نوٹ : |
|
معافی ہوگئی لیکن اگلی کی بھی تو فکر کرو، گٹر میں گرگئے پھر معافی کرلی لیکن آیندہ تو نہ گرو۔ تو یہ عرض کررہا ہوں کہ جینے کا مزا اور جینے کا لطف اس کو ہے جس نے اللہ کو خوش کرلیا، جتنا جو زمین پر اللہ کو خوش رکھتا ہے اتنا ہی اللہ تعالیٰ بھی اس کو خوش رکھتے ہیں۔ میں نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے کہ کباب اور بریانی ا ور بینک بیلنس ہے لیکن رات بھر چِلَّا رہے ہیں۔ میں نے علی گڑھ میں اپنے شیخ سے پوچھا کہ یہ تو نواب صاحب کا گھر ہے، یہ کیوں چلّا رہے ہیں؟ ہائے ہائے! کی آواز کیوں آرہی ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ ان کے گردہ میں درد اُٹھا ہوا ہے۔ کہاں گیا شامی کباب، کدھر گئی بریانی، کہاں گئیں نوٹوں کی گڈیاں اور دولت؟ اس لیے کہتا ہوں کہ اگر عقل ہے تو اللہ تعالیٰ کو خوش رکھیے۔ بغیرقصد اور فکر کے اصلاح نہیں ہوتی اور اگر کوئی بالکل انٹرنیشنل گدھا اور شیطان بن چکا ہے تو اس کا کوئی ذمہ دار نہیں، پیر بھی کچھ نہیں کرسکتا۔ جس شخص کو اپنی خود فکر نہ ہو تو ساری دنیا کے پیر اس کو اللہ کے غضب سے نہیں بچاسکتے جب تک کہ خود انسان اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہمت استعمال نہ کرے اور اگر چوڑی پہن کر بیٹھا رہے، نفس سے مغلوب رہے تو خانقاہ بھی اس کو ولی اللہ نہیں بناسکتی۔ یہ مردانِ خدا کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: رِجَالٌۙ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللہِ 29؎ مرد بن کر آؤ تب ہمارا راستہ طے کرو۔ دنیاوی معاملہ میں تو بڑے باہمت بن جاتے ہو، گناہ کے لیے رات رات بھر دوڑتے ہو، جلتی ہوئی لُو میں لوگ دوڑے ہیں۔ ایک شخص نے بتایا کہ جون کا مہینہ تھا، لُو چل رہی تھی، دھوپ میں سائیکل پر بیٹھ کر ناچ دیکھنے کے لیے دس میل گیا۔ کیوں صاحب! گناہوں کے لیے اتنی محنت کہ لُو میں ایک ناچنے والی کو دیکھنے کے لیے دس میل گئے تو پھر اللہ کو خوش کرنے کے لیے کتنی محنت کرنی چاہیے؟ عشق مولیٰ ذرا کرکے تو دیکھو جو اللہ کہ خالق نمکیاتِ لیلائے کائنات ہے، اس مولائے کائنات سے محبت کرکے دیکھو _____________________________________________ 29 ؎النور: 37