Deobandi Books

تقوی کے انعامات

ہم نوٹ :

12 - 38
الْہَوٰی نہ ہوتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ  الۡہَوٰی جو نفس کی بُری خواہش کو روکتا ہے وہ متقی اور جنتی ہوتا ہے تو جب ہَوٰی کو روکنا ہے تو ہَوٰی کا وجود ضروری ہوا، ورنہ اگر ہم کہہ دیں کہ ہمارے ہاتھ میں جو چشمہ ہے اس کو دیکھنا مت اور ہاتھ میں چشمہ نہ ہو تو کلام لغو ہوگیا اور اگر چشمہ ہے تو اب کلام صحیح ہوا۔ معلوم ہوا کہ ہر نَہِی اپنے مَنْہِیْ عَنْہُ کے وجود کی متقاضی ہے، اگر مَنْہِیْ عَنْہُ نہیں ہے تو نَہِی لغو ہے اور اللہ کا کلام پاک ہے لہٰذا مادہ ہَوٰی کا ہونا لازم ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی جو ہمارے خاص بندے ہیں وہ بُری خواہشات کو روکتے ہیں اور روکنے کا غم اُٹھاتے ہیں کیوں کہ نفس کا مزاج یہی ہے، اس کی غذا گناہ ہے۔
نفس دُشمن کے تڑپنے سے خوش ہوجائیے
جب اس کو اپنی غذا نہیں ملتی تو تڑپتا ہے لیکن دُشمن کے تڑپنے سے آپ کی روح کو خوش ہونا چاہیے۔ کیوں صاحب! اگر آپ کا دُشمن تڑپتا ہے، جلتا ہے،غم اُٹھاتا ہے تو آپ کہتے ہیں بہت اچھا ہے اور مرو مُوْتُوا بِغَیْظِکُمْ لہٰذا جب عورتوں اور لڑکوں سے نظر بچانے سے نفس کو غم پہنچے تو آپ خوش ہوجائیے کہ دُشمن کو غم پہنچ رہا ہے اور اس کی وجہ سے تقویٰ پیدا ہورہا ہے۔ اگر نافرمانی کا یہ مادّہ نہ ہوتا تو کوئی شخص متقی نہیں ہوسکتا تھا۔
فرشتے معصوم ہیں متقی نہیں
اس لیے جبرئیل علیہ السلام کو متقی کہنا جائز نہیں، معصوم کہنا چاہیے۔ فرشتوں کو ہم معصوم کہتے ہیں متقی نہیں کہہ سکتے کیوں کہ متقی وہ ہے جس کو گناہ کا تقاضا ہو، اس کو روکے، اس کا غم اُٹھائے۔ تقویٰ نام ہے کَفُّ النَّفْسِ عَنِ الْہَوٰی کا یعنی نفس کو اس کی بُری خواہش سے روکنا اور فرشتوں میں بُری خواہش ہے نہیں لہٰذا فرشتوں کو معصوم کہنا تو جائز ہے لیکن متقی کہنا جائز نہیں ہے کیوں کہ پوری دنیا میں حسن میں اوّل آنے والی لڑکی کو اگر جبرئیل علیہ السلام کی گود میں بھی رکھ دو تو انہیں پتا ہی نہیں چلے گا کہ یہ لوہے کا کھمبا ہے، یا ڈنڈا ہے یا لکڑی ہے یا پتھر ہے یا کوئی لڑکی ہے، ان کو کوئی بُرا تقاضا ہی نہیں ہوگا۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 عرض مرتب 7 1
3 تقویٰ کے انعامات 10 1
4 زندگی کا مقصد کیا ہے؟ 10 1
5 موت کی حیات پر وجۂ تقدیم 10 1
6 الہامِ فجور و تقویٰ کی حکمت 11 1
7 تقدیم فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا کا راز 11 1
8 تقویٰ کی تعریف 11 1
9 نفس دُشمن کے تڑپنے سے خوش ہوجائیے 12 1
10 فرشتے معصوم ہیں متقی نہیں 12 1
11 فرشتوں کے بجائے انسان کو شرفِ نبوت عطا ہونے کا سبب 13 1
12 اللہ کا سچا عاشق کون ہے؟ 13 1
13 تقویٰ کے انعامات 14 1
14 پہلا انعام۔ ہر کام میں آسانی 15 1
15 ارتکابِ گناہ خود ایک مشکل ہے 15 1
16 مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا (تلخ زندگی) کی تفسیر 15 1
17 بدنظری کے طبی نقصانات 16 1
18 قلبِ شکستہ کی تعمیر حلاوتِ ایمانی سے 16 1
19 ترکِ گناہ سے جو قرب عطا ہوتا ہے اس کا کوئی بدل نہیں 17 1
20 گناہ چھوڑنا حق عظمتِ الٰہیہ ہے اور اس کی دلیل قرآن سے 18 1
21 تقویٰ کا پہلا انعام۔ مشکلات میں آسانی 18 1
22 تقویٰ کا دوسرا انعام۔ مصائب سے خروج 19 1
23 تیسرا انعام۔ بے حساب رزق 19 1
24 چوتھا انعام۔ نورِ فارِق 20 1
25 پانچواں انعام۔ نورِ سکینہ 20 1
26 سکینہ آسمان سے نازل ہوتا ہے 21 1
27 نورِ سکینہ رکھنے والے قلب کی مثال قطب نما کی سوئی سے 21 1
28 اُف کتنا ہے تاریک گناہ گار کا عالَم 22 1
29 تقویٰ کا چھٹا انعام۔ پُرلطف زندگی 22 1
30 تقویٰ کا ساتواں انعام۔ عزت و اکرام 23 1
31 تقویٰ کا آٹھواں انعام۔ اللہ کی ولایت کا تاج 24 1
32 تقویٰ کا نواں انعام۔ کفارۂ سیئات 24 1
33 تقویٰ کا دسواں انعام۔ آخرت میں مغفرت 25 1
34 گناہ چھوڑنے کے لیے تین کام 25 1
35 (۱) ہمت کیجیے 25 34
36 (۲) ہمت کو استعمال کرنے کی توفیق و ہمت مانگیے 25 34
37 (۳) خاصانِ خدا سے درخواستِ دعا کیجیے 26 34
38 توبۂ نصوح کا واقعہ 26 1
39 مثنوی میں نصوح کی اضطراری دعاؤں کا عجیب انداز 27 1
40 عطائے ہمت کی دعا کس اضطرار سے مانگنی چاہیے؟ 29 1
41 شیطان کی پُرفریب تجارت 30 1
42 گناہ چھوڑنے کے لیے کتنی ہمت کرنی چاہیے؟ 31 1
43 تعلق مع اللہ کی لذت ناقابلِ بیان ہے 32 1
44 بغیرقصد اور فکر کے اصلاح نہیں ہوتی 33 1
45 انسان کا سب سے بڑا دُشمن 34 1
46 اصلاحِ نفس کے لیے دو آیات میں تفکر 35 1
Flag Counter