تقوی کے انعامات |
ہم نوٹ : |
|
الہامِ فجور و تقویٰ کی حکمتاور فرماتے ہیں کہ تمہارے امتحان کے لیے میں نے تمہارے نفس کے اندر دونوں مادّے رکھ دیے، فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا 5؎ ہم نے تمہارے نفس میں فجور کا مادّہ بھی رکھ دیا کہ تم گناہ کرسکتے ہو، خوب تقاضا ہوگا اور تقویٰ اور اپنا خوف بھی رکھ دیا لہٰذا جس سائیڈ کو چاہو رگڑکر اس میں تقویت پیدا کردو۔ دیا سلائی میں دو سائیڈ ہوتی ہیں لیکن جب تک رگڑوگے نہیں جلے گی نہیں، لہٰذا ظلم نہیں ہے کہ اللہ میاں نے کیوں ہمارے اندر گناہ کا مادّہ رکھ دیا، جیب میں دیا سلائی ہوتی ہے تو کیا جیب کو جلادیتی ہے؟ رگڑنے سے آگ لگتی ہے۔ اسی طرح نفس میں ایک طرف فجور ہے، ایک طرف تقویٰ ہے۔ اگر حسینوں سے، نمکینوں سے، عورتوں سے، لڑکوں سے میل جول کروگے تو نافرمانی کے مادّہ میں رگڑ لگ جائے گی اور گناہ کی آگ بھڑک جائے گی اور اگر تم اللہ والوں کے پاس رہوگے تو فرماں برداری کے مادّہ میں رگڑ لگ جائے گی اور تقویٰ کا نور روشن ہوجائے گا۔ تقدیم فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا کا راز کئی برس پہلے ایک بڑے عالم کے ساتھ میرا سفر ہورہا تھا۔ مولانا نے ریل میں فجر کی نماز میں یہی سورت پڑھائی۔ نماز کے بعد میں نے ان سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فجور کو کیوں مقدم فرمایا؟ فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا نافرمانی کو اللہ نے کیوں مقدم کیا؟ گندی چیز کو کیوں مقدم کیا؟ فجور اور نافرمانی تو خراب چیز ہے جبکہ مقدم تو اچھی چیز ہونی چاہیے۔ مولانا نے فرمایا کہ بھائی! تم ہی بتاؤ۔ میں نے کہا دیکھیے! موقوف علیہ پہلے ملتا ہے، بخاری بعد میں ملتی ہے یعنی دورہ بعد میں ہوتا ہے، چوں کہ فجور اور نافرمانی کا مادّہ اگر اللہ نہ رکھتا تو تقویٰ کا وجود بھی نہ ہوتا۔ تقویٰ کی تعریفکیوں کہ تقویٰ کے معنیٰ ہی یہ ہیں کہ نافرمانی کا تقاضا ہو اور پھر اس کو روکے اور اس کا غم اُٹھائے۔ اس غم سے پھر تقویٰ کا نور پیدا ہوتا ہے۔ اگر مادّہ فجور نہ ہوتا تو کَفُّ النَّفْسِ عَنِ _____________________________________________ 5 ؎ الشمس: 8