تقوی کے انعامات |
ہم نوٹ : |
|
گناہ چھوڑنے کے لیے کتنی ہمت کرنی چاہیے؟ اور اپنی ہمت کو کتنا استعمال کرنا ہے؟ اس کی شرح کرکے ختم کرتا ہوں۔ یہ سمجھ لیں کہ ایک حسین لڑکی کھڑی ہے اور ایک حسین لڑکا بھی کھڑا ہے اور اس کا باپ ایس پی ہے اور وہ پستول لگائے کھڑا ہے اور وہ نظربازوں کو پہچانتا بھی ہے اور ایک صاحب سے کہہ رہا ہے کہ سنا ہے کہ آپ عشق سے پاگل ہوجاتے ہیں، حسینوں کو دیکھ کر آپ کو ہوش نہیں رہتا، آپ پچاس سال سے اس بیماری میں مبتلا ہیں اور آپ اپنے احباب اور اپنے شیخ سے بھی کہتے رہتے ہیں کہ جب مجھے کوئی حسین نظر آجاتا ہے تو مجھے ہوش نہیں رہتا اور میں اسے دیکھنے پر مجبور ہوجاتا ہوں اور میں حفاظتِ نظر کی سب تقریر بھول جاتا ہوں، خانقاہ کو بھی بھول جاتا ہوں، شیخ کو بھول جاتا ہوں، سنا ہے کہ آپ رومانٹک دنیا کے بڑے ہیرو اور چیمپئن ہیں۔ اس نے کہا کہ آج میں پستول کا نشانہ لگاتا ہوں، میرا لڑکا اور لڑکی بہت حسین ہے، ذرا دیکھ کر دکھاؤ۔ بتائیے! اس وقت وہ کیا کرے گا، دیکھے گا؟ پستول سامنے ہے تو جتنی ہمت اس وقت استعمال کروگے کہ لاکھ تقاضا ہوگا لیکن مارے ڈر کے چپکے سے کھسک جاؤگے یا شیر ساتھ میں ہو اور شیر کہہ دے کہ یہ لندن سے ملکہ آئی ہے، اس کو دیکھنا مت ورنہ پھاڑ کھاؤں گا تو آنکھوں پر ہاتھ رکھ لو گے کہ شیر صاحب بدگمانی نہ کرنا میں دیکھ نہیں رہا ہوں، نہیں تو کہیں پھاڑ کھاؤ۔ یا کوئی زبردست قاتل غنڈہ اور خونی ہے، اس کی لڑکی یا لڑکا ہے اور تمہیں جان کا خطرہ ہے کہ دیکھوں گا تو جان سے مار ڈالے گا تو بتاؤ اس وقت دیکھوگے؟ تو جان بچانے کے لیے جو ہمت اس وقت استعمال کروگے تو اللہ تعالیٰ بھی دیکھ رہا ہے ؎ جو کرتا ہے تو چھپ کے اہلِ جہاں سے کوئی دیکھتا ہے تجھے آسماں سے اس وقت وہی ہمت استعمال کیجیے جو جان بچانے کے لیے کی جاتی ہے جبکہ جان لینے والا کھڑا ہے پستول لے کر اور کہے کہ ذرا دیکھو ہمارے حسین لڑکے یا لڑکی کو۔ جتنی ہمت وہاں استعمال کرتے ہو اس سے زیادہ اللہ کے دیکھنے سے ڈرو۔ ایس پی یا غنڈہ قاتل کیا چیز ہے؟ اس کا پستول کیا ہے؟ اس کی فائرنگ تو کبھی غلط بھی ہوسکتی ہے، مس بھی ہوسکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی