تقوی کے انعامات |
ہم نوٹ : |
|
بُھلاتا ہوں پھر بھی وہ یاد آرہے ہیں اِنْ اَرَادَ سُوْءً ا اَوْ قَصَدَ مَحْظُوْرًا عَصَمَہُ اللہُ عَنْ اِرْتِکَابِہٖ 20؎ صاحبِ نسبت اگر کسی بُرائی کا ارادہ بھی کرلے، کسی گناہ کے ارتکاب کا قصد بھی کرلے تو ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا ولی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرمائیں گے اور گناہ سے بچالیں گے۔ اس کے دل میں ایسی بے چینی آئے گی اور گناہ میں اس کو ایسی موت نظر آئے گی کہ وہ گناہ اور تقویٰ دونوں کا بیلنس نکالے گا اور کہے گا کہ نہیں بھائی! تقویٰ ہی میں فائدہ ہے، اس گناہ میں تو بہت مصیبت نظر آرہی ہے۔ سکینہ آسمان سے نازل ہوتا ہے تو تقویٰ سے نورِ سکینہ ملتا ہے اور اَنْزَلَ سے نازل کیا کہ اس نور کو زمین سے نہیں پاسکتے، یہ پیٹرول نہیں ہے جس کو سائنس دان نکال لیں، وہ اللہ تعالیٰ جس سے خوش ہوتا ہے اس کے دل پر سکینہ نازل کرتا ہے، ھِیَ نُوْرٌ یَّسْتَقِّرُ فِی الْقَلْبِ وَبِہٖ یَثْبُتُ التَّوَجُّہُ اِلَی الْحَقِّ 21؎ یہ ایک نور ہے جو دل میں ٹھہر جاتاہے جس کی وجہ سے وہ ہر وقت باخدا رہتا ہے۔ نورِ سکینہ رکھنے والے قلب کی مثال قطب نما کی سوئی سے جیسے مقناطیس کی سوئی کے ذرا سا مقناطیس لگا ہوا ہے جس سے ہر وقت اس کا رُخ شمال کی طرف رہتا ہے، اگر مقناطیس کو کھرچ دو تو سوئی کو جس طرف چاہو موڑ دو، جب تک وہ مقناطیسی پالش ہے قطب نما کی سوئی شمال کی طرف رہے گی جو مرکز ہے، مخزن ہے، سرچشمہ ہے مقناطیس کا۔ ایسے ہی جن کے دل پر اللہ کے نور کی پالش لگ گئی، اللہ تعالیٰ کے مرکزِ نور کی طرف ان کا قلب نوّے ڈگری ہر وقت رہنے پر مجبور و مضطر ہوگا۔ اگر کوئی حسین اس کو ہٹائے گا تو وہ قلب قطب نما کی سوئی کی طرح تڑپے گا یہاں تک کہ توبہ تِلّا کرکے پھر اپنا رُخ صحیح نہ کرلے۔تو سکونِ قلب بہت بڑی نعمت ہے، کسی گناہ گار کو سکون نہیں۔ _____________________________________________ 20 ؎تفسیر الثعالبی:الشورٰی (28) 21 ؎روح المعانی:25/11،دار احیاء التراث، بیروت