تعلیم قرآن میں شان رحمت کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
فرمائی کہ اپنے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زندگی کی قسم کھائی: لَعَمْرُکَ اِنَّہُمْ لَفِیْ سَکْرَتِہِمْ یَعْمَہُوْنَ 21؎ (اے محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) قسم ہے آپ کی حیات کی! کہ (لڑکوں کے ساتھ بدفعلی کرنے والی) یہ (بدمعاش قومِ لوط) اپنے نشے میں پاگل ہورہی تھی۔ ایک بار دل میں خیال آیا کہ ایسی گندی قوم کے تذکرے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کی قسم اللہ تعالیٰ نے کیوں اُٹھائی؟ اللہ تعالیٰ کے کرم سے دل میں جواب آیا کہ جس طرح قومِ لوط شہوت و باہ کے نشے میں پاگل ہورہی تھی اور اپنے نبی کو دھمکیاں دے رہی تھی، اِسی طرح اہل مکّہ تکبر و جاہ کے نشے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی قسم کھاکر اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ جس طرح شہوت پرستوں کے نشۂ باہ کو ہم نے پاش پاش کردیا، اِسی طرح اہلِ مکّہ کے تکبر و جاہ کو بھی ہم پاش پاش کردیں گے اور آپ کی زندگی کی حفاظت فرمائیں گے۔ اور زنا کے نشے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یَعْمَہُوْنَ نہیں فرمایا لیکن اس خبیث فعل کے لیے لَفِیْ سَکْرَتِہِمْ یَعْمَہُوْنَ کا جو عنوان اختیار فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ اس خبیث فعل کا نشہ زیادہ خبیث ہے، اس لیے صلوٰۃُ الحاجت پڑھ کر روؤ کہ اے اللہ! ہم کو وفاداری عطا فرما کہ ہم روٹی آپ کی کھاتے ہیں، لیکن جب نمکین شکل سامنے آتی ہے تو پاگل کتے کی طرح ہوجاتے ہیں، اس وقت انسان نہیں رہتے۔ جس وقت انسان اللہ کی نافرمانی اور غضب اور قہر کے سائے میں ہوتا ہے اس وقت وہ کیا انسان رہتا ہے۔ اس وقت اس میں شرافت اور انسانیت ہوتی ہے؟ بس سلوک کا حاصل یہ ہے کہ اپنی حرام تمناؤں اور حرام آرزوؤں کا خون کر کے اللہ تعالیٰ سے وفاداری کرو، اُس کے قانون کا احترام کرلو اور نظر کی حفاظت کرلو اور مولیٰ کو پالو۔ بدفعلی سے بچانے والا ایک مراقبہ اگر نفس کہے کہ یہ نہیں ہوسکتا، تو تم نفس سے کہو کہ او کمینے! تو جس سے بدفعلی کرنا چاہتا ہے تو یہ لڑکا بھی کسی کا بیٹا ہے، کسی کا بھائی ہے اور ایک دن ابّا ہونے والا ہے، تو کیا اپنی اولاد _____________________________________________ 21؎الحجر:72