تعلیم قرآن میں شان رحمت کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
کے لیے نہیں بنایا۔ ذرا سوچو! کتنے خبیث مقامات پر اپنی زندگی ضایع کر نا چاہتے ہو جہاں سے گو نکلتا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہمیں اس لیے پیدا کیا ہے کہ ہم مقامِ گو اور مقامِ گندی ہوا پر اپنی زندگی کے قیمتی ایام ضایع کریں؟ جس ایک سانس میں آدمی اللہ کو یاد کر کے اللہ والا بن کر فرشتوں سے افضل ہوسکتا ہے، ان قیمتی سانسوں کو گو کے مقام پر وقف کر کے خدا کا غضب مول لینا کہاں کی عقل مندی ہے؟ مرتکبِ بدفعلی کی تعلیم قرآنِ پاک سے محرومی قرآنِ پاک پڑھانا فرضِ کفایہ ہے اور تقویٰ فرضِ عین ہے۔ پس جو شخص ایک مرتبہ بھی اس گناہ میں مبتلا ہوگیا ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ تدریس کرے، کیوں کہ بچوں کو پڑھانے سے وہ دوبارہ مبتلا ہونے سے نہیں بچ سکتا۔ ایسا شخص امامت کرلے یا تجارت کرلے خواہ سبزی بیچ کر گزارہ کرلے، لیکن بچوں کو نہ پڑھائے۔ دینی خدمت کا مقصد اﷲ کو راضی کرنا ہے، جو کام غضبِ الٰہی کا سبب ہو وہ دینی خدمت میں شمار ہی نہیں ہوسکتا۔ خدا کے غضب اور نافرمانی سے بچنا فرضِ عین ہے۔ مرد مرد کے لیے کبھی حلال نہیں ہوسکتا۔ وہ بہت بدمعاش اور کمینہ ہے جو لڑکوں کے عشق میں مبتلا ہوتا ہے۔ جو چیز دائماً حرام ہے اس کی طرف لالچ کرنا گناہ ہے، کمینہ پن ہے۔ اللہ نے مردوں کو مردوں کے لیے بچپن سے بڑھاپے تک حرام کیا ہے، جو لوگ دیندار ہیں، خصوصاً مدارس میں پڑھانے والے اور صوفیا اور خانقاہوں والے اس کا خاص خیال رکھیں،کیوں کہ اگر کوئی اس فعل میں مبتلا ہوا تو وہ مدرسہ اور خانقاہ اور تمام اﷲ والوں کی بدنامی کا سبب ہوگا۔ اہل اﷲ سے امت کو اگر بدگمانی ہوئی تو اس کا سارا وبال اس شخص کی گردن پر ہوگا۔ مجرمانہ خوشی میں کہتا ہوں اس فعل کی خبر سن کر دل میں خوشی بھی محسوس نہ کرو۔ جس فعل پر اللہ تعالیٰ اتنا غضب ناک ہوئے کہ بستی الٹ دی اور پتھر بھی برسایا، اس خبیث فعل کی خبر سن کر مومن کو خوش ہونا زیب دیتا ہے؟ اس لیے جو اس فعل خبیث میں مبتلا ہوگا یا جو یہ فعل تو نہ کرے لیکن اس فعل سے راضی ہو اور اس کی خبر سن کر مزہ لے، تو اس کی عقل پر عذاب آئے گا، عقل پر پتھر برس جائیں گے، حماقت اور بے وقوفی کے اعمال اس سے صادر ہوں گے اور ذلیل ہوجائے گا۔