تعلیم قرآن میں شان رحمت کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
جیسے جب بخار ۱۰۴ ڈگری کا ہوتا ہے تو ہر ایک احتیاط کرتا ہے، مگر کم بخار پر توجہ نہیں دیتاحتیٰ کہ یہ ہڈیوں میں اُتر جاتا ہے اورتپ دق بن جاتاہے،اس لیے چاہے میلان نہ ہو، نمک کم ہو پھر بھی اَمارد سے مکمل احتیاط کرو۔ ان سے ہنسی مذاق، تنہائی میں ان کے ساتھ رہنا، ان سے بدنی خدمت لینا آہستہ آہستہ دل کا روگ بن جاتا ہے۔ بس سمجھ لو لڑکا ہے تو کچھ دن کے بعد نانا ابّو ہوجائے گا۔ جب ۷۰ برس کا ہو کر آئے گا تو اب اس سے عشق لڑاؤ گے؟ کون ظالم ہے جو اس سے عشق لڑائے گا؟ سارا عشق ناک کے راستے نکل جائے گا،اور لڑکی نانی اماں بن جائے گی، تب اس سے کہو گے کہ ایک زمانے میں ہم تم پر عاشق تھے؟ لہٰذا سب افسانے، سب خواب ہیں۔ بس نہایت احمق، انٹرنیشنل گدھا اور خبیث ہے جو عشقِ مجازی میں مبتلا ہو کر اپنی رسوائی اور منہ کالا کرنے کا انتظام کرتا ہے۔ فاعل اور مفعول ایک دوسرے کی نظر میں ہمیشہ کے لیے ذلیل و رسوا ہوجاتے ہیں، نظر نہیں ملاسکتے، اور شاگرد ایسے استاد کو ہر جگہ ذلیل کرتا ہے کہ دیکھویہ قرآن شریف پڑھاتا ہے اور کیسے خبیث کام کرتا ہے۔ نفس کی چالوں سے ہوشیار نفس کی چالیں بہت باریک ہوتی ہیں، اس کی چالوں کووہی سمجھ سکتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہو،ورنہ حسین لڑکوں کودیکھ کرنفس ان پربہت مہربانی کرتا ہے کہ یہ لڑکا بہت ذہین ہے اس کوپیار سے پڑھاؤں تو صحیح پڑھے گا، لہٰذا اُسے گود میں بٹھانا، چُما لینا، کھانے پینے کی چیز دینا، گال کو چھونا، گلے لگانا، اس کے لیے دل میں گندے خیالات پکانا یہ سب ظلم ہے،حرام ہے۔ اس سے کپڑے ناپاک ہوجاتے ہیں، وضو ٹوٹ جاتا ہے، پھر اسی حال میں قرآن پاک کو ہاتھ لگارہے ہیں اور جہنم کو اپنے اوپر حلال کر رہے ہیں۔ لڑکوں کے عشق کی ذلت و رسوائی اور عذاب جب سے زمین آسمان قائم ہوئے ہیں کسی شخص کو عشقِ مجازی سے عزت نہیں ملی، سب کو رُسوا ہونا پڑا، اس لیے اپنا منہ کالا مت کرو۔ اللہ کے لیے اپنی جانوں پر رحم کرو۔لڑکوں کے عاشقوں کو لوگ نہایت ذلت وحقارت سے دیکھتے ہیں۔کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ فلاں لڑکے کے عاشق صاحب دامت برکاتہم وعمت فیوضہم ہیں، بلکہ جدھرسے گزرتا ہے سب کہتے ہیں کہ