تعلیم قرآن میں شان رحمت کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
بچوں کو قصائیوں کے حوالے نہیں کریں گے۔ آج انگریزی اسکول کے لڑکوں کو ٹافیاں اور چائے مل رہی ہے اور عربی مدرسوں کے لڑکوں کو گھونسے اور ٹھونسے مل رہے ہیں۔ مجھے ایک عورت نے فون کیا کہ میراایک بچہ مدرسے میں پڑھتا ہے اور سب بھائی اس کے اسکول میں پڑھتے ہیں،وہ اپنے بھائیوں سے کہتا ہے کہ تم لوگ بڑے اچھے ہو کہ اسکول میں تم کو ٹافی مل رہی ہے اور چائے بھی مل رہی ہے اور کھیلنے کے لیے فٹبال بھی مل رہا ہے اور مدرسوں میں مت جانا، ہمارا حال دیکھ لو، وہاں قصائی بیٹھے ہوئے ہیں۔اﷲ کے نام پر واسطہ دیتا ہوں کہ قیامت کے دن اپنے لیے دوزخ کا راستہ مت بناؤ۔ اگر ہم لوگوں کے اخلاق سے مدرسے بند ہوگئے یا کسی نے اپنے لڑکے کو مدرسے سے نکال کر اسکول میں داخل کرادیا، قیامت کے دن دوزخ میں جانے کے لیے یہی خبیث عمل کافی ہے۔ بتاؤ! اگر اﷲ نے قیامت کے دن پوچھا کہ تم نے لڑکوں کی اتنی پٹائی کیوں کی کہ جس کی وجہ سے وہ مدرسے چھوڑ کر انگریزی اسکولوں میں چلے گئے تو آپ کیا جواب دو گے؟ اگر تمہارے بچوں کوکوئی اس طرح مارے تو تمہارا کیا حال ہوگا؟ اکثر پڑھانے والے چوں کہ غیر شادی شدہ ہوتے ہیں، اس لیے اولاد کی محبت کے درد سے نا آشنا ہوتے ہیں۔ یہ شعر میں نے بہت پرانا سنا تھا ؎اگر تو صاحبِ اولاد ہوگا تجھے اولاد کا غم یاد ہوگا بچوں کی پٹائی کرنے والے اساتذہ کی سَزا آج سے دو سال پہلے ایک بچے کو استاد نے مارا، میرے سامنے وہ بچہ آیا تو اس کی پیٹھ پر پانچوں انگلیاں بنی ہوئی تھیں اور کالا ہوگیا تھا۔ میں نے اسی وقت اس استاد کو نکال دیا، میں نے کہا کہ تم اس قابل نہیں ہو کہ تم کو استاد رکھا جائے، تمہیں شرم نہیں آتی۔ اس بچے کی ماں نے بھی سفارش کی۔ میں نے کہا:یہ خالی تمہارا حق نہیں ہے، اس میں اﷲ کا بھی حق ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس بے رحمی کو پسند نہیں کرتا۔ ہم تمہاری سفارش اﷲ کے مقابلے میں قبول نہیں کرسکتے۔ ایسے قصائی استاذ کا نکالنا مجھ پر فرض ہے۔ میں نے مدرسہ جنت کے لیے کھولا ہے ،مجھ سے بھی تو سوال ہوگا کہ تمہارے مدرسے میں طلباء پر جو ظلم ہو رہا تھا تم نے کیا معاملہ کیا؟ اور یہ بھی بتادیتا ہوں کہ ہم نے مدرسہ پیٹ کے لیے نہیں کھولا، نہ مولانا مظہر تنخواہ لیتے ہیں نہ ہم