ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2012 |
اكستان |
پڑھنے والا اپنی زبان میں پڑھ لیتا ہے، یہی حال چینی زبان کا ہے۔ چین میں آٹھ مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن یہ سب ایک ایسے مشترک خط میں لکھی جاتی ہیں کہ شمالی چین کی زبان میں لکھی ہوئی کتاب کو جنوبی چین میں رہنے والا وہ شخص بھی پڑھ سکتا ہے جسے شمالی چین کی زبان سے قطعاً کوئی واقفیت نہیں، گویا چین کے مختلف حصوں میں رہنے والے لوگ ایک دُوسرے سے بات چیت تو نہیں کرسکتے ہیںلیکن سارے چین میں ایک ہی اَخبار پڑھا جاسکتا ہے، باوجودیکہ سارے چین میں آٹھ مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں، دَراصل چینیوں کا رسم الخط تصویری رسم الخط کی ایک صورت ہے جو چین کی آٹھ مختلف زبانوں کے لیے مشترکہ حیثیت رکھتا ہے اَور ولکنز نے جو رسم الخط اِیجاد کیا تھا وہ ساری دُنیا کی زبانوں کے لیے اِستعمال کیاجاسکتا تھا یا کم اَز کم ولکنز کا یہ دعویٰ تھا کہ اِس کے اِیجاد کردہ رسم الخط میں عالمی ہونے کی صلاحیت ہے۔ (٥) ١٨٧٩ء میںجرمنی کے ایک دَانشور نے جس کا نام '' جان مارٹن شیلیر(Johann Martin Schleyer) تھا، وو لاپوک(Volapuk) نام سے ایک زبان اِیجاد کی،یہ پہلی خوش نصیب مصنوعی زبان تھی جسے لکھا اَور پڑھا گیا ، اِس میں کتابیں تصنیف کی گئیں اَور تراجم ہوئے، اِس زبان کی اِیجاد کے صرف دس سال بعد ١٨٨٩ء میں اَندازہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وو لاپوک کے حمایتی دو لاکھ سے اُوپر تھے، دو درجن رسالے اَور تین سو سے اُوپر جماعتیں اِس کی نشرواِشاعت میں مصروف تھیں۔ وولاپوک کا مقصد اِس کے نام اَور نعرے سے ظاہر ہے، وولاپوک(Volapuk) اِسی زبان کے دو کلمات سے مرکب ہے۔ '' وولا''(Vola) یعنی '' عالمی''اَور ''پوک''(Puk) یعنی '' زبان'' عالمی زبان۔اِس زبان کے حامیوں کا نعرہ(Motto) تھا : Menade Bal Puki Bal (For One Humanity One Language) یعنی ایک اِنسانیت کے لیے ا یک زبان، اَفسوس کہ یہ زبان اپنے ہی چاہنے والوں کے باہمی اِختلافات کے بعد جس سُرعت سے پھیلنی شروع ہوئی تھی، اُسی سرعت سے ١٨٨٩ء میں اِنحطاط کا شکار ہوگئی۔ (٦) ١٨٨٧ء میں '' وولاپوک'' کے زوال سے دو سال پہلے اُس زمانے کی مشہور اَور