ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2012 |
اكستان |
|
کو اِطلاع دینا اَور آنحضرت ۖ کا اُسی دِلنواز کلمہ سے تسکین دینا کہ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا پھر بہ دُعائے نبوی ۖ سراقہ کا مع اپنے گھوڑے کے سنگلاخ زمین میں زَانو تک دھنس جانا اَور پھر آنحضرت ۖ سے پناہ مانگ کرزمین کی گرفت سے رہائی پانا، وہ ایک منزل میں جب کھانے پینے کی کوئی چیز دستیاب نہ ہوتی تھی حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کا ایک چرواہے سے دُودھ مانگ کر لانا اَور ٹھنڈا پانی اُس میں مِلا کر حضرت ۖ کے سامنے پیش کرنا اَور اِصرار کر کے پلانا اَور بچا ہوا خود پینا اَور یہ کہنا کہ شَرِبَ حَتّٰی رَضِیْتُکہ حضرت نے اِتنا پیا کہ میں خوش ہو گیا۔ یہ وہ واقعات ہیں کہ جس کا دِل دردِ محبت سے کچھ آشنا ہو، وہ اِن کی قدر جان سکتا ہے۔ سفر ہجرت میں حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی رفاقت کا تذکرہ قرآنِ مجید میں بڑی شان کے ساتھ ہے اَور آنحضرت ۖ بھی بار بار اُن کی اِس خدمت کا تذکرہ فرماتے تھے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حَمَلَنِیْ اِلٰی دَارِ الْہِجْرَةِ یعنی اَبو بکر مجھے دَارُ الْہِجْرَةِ (مدینہ) میں سوا رکر کے لائے اَور وفات سے پانچ دِن پہلے جو خطبہ آپ ۖ نے پڑھا اُس میں فرمایا کہ جس نے کوئی اِحسان ہمارے ساتھ کیا ہم نے اُس کا بدلہ کرد یا سوائے اَبوبکر کے کہ اُن کی خدمات کا بدلہ قیامت کے دِن خدا دے گا۔ ١ اُونٹ پر دو آدمی سوار ہوتے ہیں، عربی زبان میں دُوسرے سوار کو'' رَدیف'' کہتے ہیں۔ صحابہ کرام میں بھی حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی اِس بے نظیر جاں نثاری کا چرچا بہت تھا، لوگ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے اِس سفر کے حالات پوچھا کرتے تھے اَور خود اُن کی زبانِ مبارک سے سننے کے مشتاق ١ رہتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے عہد ِخلافت میں فرمایا کرتے تھے کہ اَبو بکر صدیق رضی اللہ عنہ صرف شب ِغار کی اپنی خدمت اَور قتال ِمرتدین کا کار نامہ مجھے دے دیں اَور میری ساری عمر کے تمام اَعمال لے لیں تو میں ہی فائدہ میں رہوں گا۔ (جاری ہے) ١ چنانچہ صحیح بخاری میں براء بن عازب کے اِشتیاق کا ایک خاص واقعہ مروی ہے۔