ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2012 |
اكستان |
|
رُؤیائے صالحہ کے بارے میں مختلف روایات ہیں بعض میں اِس کو ثبوت کا سترہواں بعض میں چالیسواں بعض میں چھیالیسواں جز قرار دیا گیا ہے۔ اٰتَاہُ اللّٰہُ لِصَالِحِی الْاُمَّةِ کَالْکَرَامَةِ......الخ (کردری ص ٣٠) '' رُؤیائے صالحہ کو اللہ تعالیٰ صالحین ِ اُمت کے لیے بطورِ کرامت کے عنایت فرماتا ہے۔'' لیکن جاہل صوفیاء اَور دُکاندار اَور نئے پیروں کے یہاں خوابوں پر ہی زندگی کے نقشے بنتے اَور بگڑتے ہیں جو بھی کوئی خواب گھڑ کر سنا دے بس اُسی پر اُس کی کرامت کا اِنحصار ہوتا ہے اَور اُس کے حالات سے قطعِ نظر کر لی جاتی ہے جو ایک بڑا عظیم مفسدہ ہے جس کی روک تھام کی ضرورت ہے۔ حضرت شیخ الاسلام نے جو خواب دیکھے ہیں (جن کو ہم اُن ہی کے الفاظ میں نقش ِحیات سے نقل کر رہے ہیں ) وہ اُن کی شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے اُن کی شرافت اَور کرامت اَور بزرگی کے لیے ایک نشانی ہیں۔ بالفرض اگر حضرت اِن خوابوں کو نہ بھی دیکھتے یااُن کو نہ دکھلائی جاتیں تب بھی حضرت کی زندگی اُن کا زہد و تقوی اَور اِتباعِ سنت اِس درجہ کا ہے کہ جس کی موجود گی میں اُن کے رُوحانی کمالات کا اِنکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال منزلِ سلوک طے کر نے میں سالک کو بشارت اَور رُؤیائے صالحہ دِکھلا دِکھلا کر آگے بڑھایا جاتا ہے اِس وجہ سے رُؤیاء سلوک میں ذکر کی جاتی ہیں لہٰذا ہم بھی اِس عنوان کو پورا کرنے کے لیے حضرت کے رُؤیائے صالحہ اَور بشارات کا تذکرہ اِن الفاظ میں کرتے ہیں ۔ کچھ عرصہ سے (تقریبًا سو برس یا اِس سے زائد) ہندوستان میں برکات ِذکرو شغل اُٹھ گئی ہیں اَور اُٹھتی جاتی ہیں وہ فیض جو زمانہ ٔ قدیم میں حاصل ہوتا تھا اَب نہیں ہوتا، حرمین شریفین میں فیض بدرجہ ٔ اَتم موجود ہے ۔(اَوکماقال)