ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2012 |
اكستان |
|
اَور دے سکتا ہے بلکہ اُسے اَور طول دے دیا کہ جاؤ پہلے خطوط لکھواؤ تار دِلواؤ نئے سرے سے مطالبہ شروع کرو تو ایسے حاکم سے آپ کیوں نہیں پوچھتے کہ جناب اِسی بات پر تو آپ نے ریفرینڈم کرایا تھا کیا اپنے ریفرینڈم کی عبارت بھول گئے ہیںیا حزب ِ اِختلاف کی طرح آپ خود بھی اپنے ریفرنڈم کی نفی کر رہے ہیں۔ (٣) اِن ہی بھولے بھالے علماء سے یہ سوال ہے کہ ایسا حکمران طبقہ جو پبلک کو ایسی کفریہ ''ہاں''اَور'' نہیں'' میں پھنسائے پھر اُس سے پھر جائے پھر لمبا راستہ دِکھائے، کیا اِس کا اِیمان بھی قائم رہا ہے یا اُسے تجدید ِ اِیمان اَور علی الاعلان توبہ کرنی چاہیے تاکہ مذکورہ بالا وعیدوں سے وہ بچ سکے اَور یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ (پارہ ١ رکوع ٢) کی فہرست میں داخل نہ رہے۔ (٤) کوئی آمراَپنے اُوپر عدل و اِنصاف جو شریعت ِ مطہرہ کا خاصہ ہے مسلط اَور حاوی کرنا نہیں چاہ سکتا۔ اِس لیے وہ اِسلامی قانون کے نفاذ سے حتی الوسع گریز کرتا ہے کیونکہ اُسے اپنی مصلحت کے تحت من مانی کرنی ہوتی ہے اَور اَگر وہ من مانی کرے گا تو اُس کا خلافِ شرع چلنا فورًا ظاہر ہوجائے گا اِس لیے اُسے یہی اچھا لگتا ہے کہ شریعت نہ آنے پائے۔ نیز قومی اسمبلی چاہتی ہے کہ وہ بااِختیار' مقننہ 'رہے اَوراِسلامی قوانین کے نفاذ کے بعد وہ اِن قوانین کی تائید و تقویت کے لیے تو قوانین بناسکتی ہے مگر حسب ِ دِل خواہ ایسے قوانین نہیں بنا سکتی جو اِسلامی قوانین سے متصادم ہوں گویا وہ مطلق العنان مقننہ نہیں رہتی اِس لیے وہ بھی خود بخود حتی الوسع شرعی قوانین کے نفاذ کی منظوری سے گریز ہی کرے گی، خصوصًا جب یہ دیکھے گی کہ اِس سے اُوپر والا بھی یہی چاہتا ہے ۔ نیز یہ بھی حقیقت ہے کہ قومی اسمبلی کے ممبران تو اپنے اپنے علاقوں کے مسائل حل کرانے کے وعدے پر ووٹ لے کر آتے ہیں قانونِ شریعت کی اَصل اَور بنیادی ذمہ داری اُسی شخص کی بنتی ہے جس نے اِس نام پر ووٹ مانگا اَور خود کو کامیاب بنایا۔ (٥) ہر حکومت اُس وقت دباؤ قبول کرتی ہے جب کسی میں پُر زور طرح ''وگرنہ'' کہنے کی