ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2012 |
اكستان |
|
ہندوستان کی مذکورہ بالا حالت و کیفیت میں ہمیں اِس کا 'سیاسی' حل نکال لینا چاہیے 'فوج کَشی' اِس کا حل نہیں۔ جہاں تک لاہور سیالکوٹ بار ڈر کا تعلق ہے تو روز مرہ خبریں آرہی ہیں کہ وہاں ہندوستان اپنے دفاع کو اِنتہائی مضبوط بنا رہا ہے کہ پاکستان اِدھر نہ بڑھ سکے چاہے سکھ سپلائی لائنیں بھی کاٹ دیں۔ اَبھی چندی گڑھ میں ساٹھ جنرلوںکی میٹنگ کی خبر آئی تھی۔ ٭ میں نے کہا : کہ مجھے اپنے جنرلوں کے بارے میں یہ گمان ہے کہ یہ اپنی اپنی حدود میں تو نقشہ جنگ بہت اچھا بنا سکتے ہیں لیکن سارے ملک کے مجموعی نقشہ میں' سیاسی دماغ' کی ضرورت ہوتی ہے صرف 'فوجی دماغ' یہ نہیں بنا سکتا۔ ٭ میں نے کہا : کہ مشرقی پاکستان میں یہ ہو سکتا تھا کہ فوجیں ہر طرف سے سمیٹ کر 'سندر بن' ١ کو مرکز اَور برما کی سرحد کو اپنی پشت پناہ بنالیا جاتا۔ اگر اُس وقت ایسا کر لیا جاتا تو لڑائی جاری ہی رہتی اَور بنگلہ دیش کبھی نہ بنتاہتھیار نہ ڈالے جاتے لیکن پورے ملک کی لڑائی یحییٰ خاں لڑ رہا تھا وہ یہ حکم نہ دے سکا 'فوجی ذہن' تھا 'محاذ' سنبھال سکتا تھا 'پورا ملک' نہیںجس کے لیے 'سیاسی دماغ' کی ضرورت تھی۔معلوم ہوتا ہے کہ نہ اُسے جغرافیہ کا مطالعہ حاصل تھا نہ تاریخ کا ،میں نے یہ سوال خود جنرل نیازی سے بھی کیا جس پر اُن کا جواب قطعًا غیر تسلی بخش تھا۔معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی فوجی حکمراں اپنے ذمہ دونوں کام لیتے ہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔یحییٰ خاں' اَنگریز' کا تربیت یافتہ تھا مکمل اَور بڑا نقشہ' سیاست داں اَنگریز' خود بناتے تھے اَور میدانِ جنگ کا 'جنرل' بناتے تھے۔آج کے فوجی بھی اُن کے شاگردوں کے شاگرد ہیں اِن کی وہی تربیت ہے جو اِن کے اُستادوں کی اَنگریز نے کی تھی۔ آج پھر صورت ِحال وہی ہے کہ سب کچھ فوج کے ہاتھوں میں ہے اُس کے پاس ایک ذمہ داری ہونی چاہیے مگر اُس نے دونوں لے رکھی ہیں اِس لیے پھر لغزشِ پا کااَندیشہ محسوس ہو رہا ہے خدا پناہ میں رکھے۔ ١ بنگال کا مشہور جنگل