ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2011 |
اكستان |
|
جو لوگ اِیمان لائے ہیں اَور کیے ہیں اچھے کام اُن کے واسطے ہیں ٹھنڈی چھاؤں کے باغ بطورِمہمانی ، ہمیشہ رہیں اُن میں ،نہ چاہیں وہاں سے جگہ بدلنی ۔'' تیس اِکتیس مارچ کو بالترتیب صوابی اَور چار سدہ کے جماعتی جلسوں اَور اِستقبالی جلوسوں میں قائدِ جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہم العالی پر خودکش بمباروں اَور بندوق برداروں کے ذریعہ اِنتہائی خطرناک حملے کرائے گئے، اللہ تعالیٰ نے مولانا مدظلہم کو اِن حملوں میں محفوظ رکھا ،چار سدہ کے مقام پر ہونے والا حملہ زبردست منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا تھاجس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا اَور اُن کے قریبی رُفقاء کو بال بال بچالیا ،والحمد للہ علی ذالک۔ اَلبتہ مولانا کے ذاتی محافظ اَور جماعتی کارکنوں اَور پولیس گارڈز کی بڑی تعداد میں شہادتیں ہوئیں اَور اِس سے کہیں بڑھ کر کثیر تعداد زخمیوں کی تھی۔ خیرو شر کی باہمی کشمکش تب سے جاری ہے جب سے دُنیا وجود میں آئی ہے اَور قیامت تک یہ کشمکش چلتی رہے گی کامیابی ہے اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے اہل ِخیر کا ساتھ دیتے ہوئے اپنا ہاتھ اُن کے ہاتھ میں تھمادیا بدنصیبی ہے اُن لوگوں کی جنہوں نے اپنی صلاحیتیں ''شر '' کی نذر کردیں۔ اہل اِسلام کو ہمیشہ سے دو قسم کے خطرات کا سامنا رہا ہے ایک اَندرونی اَور دُوسرا بیرونی لیکن اَندرونی دُشمن سے اہل اِسلام کو جتنا نقصان ہوا اُتنا بیرونی دُشمن سے نہیں ہوا بلکہ بیرونی دُشمنوں کو جرأت بھی اَندرونی دُشمنوں کی وجہ سے ہوئی ورنہ وہ بھی نہ ہوتی۔ اَندرونی اِنتشار کا ہی نتیجہ ہے کہ عالمی سطح کی سیاسی قیادت اہل اِسلام کے ہاتھ سے نکل گئی بعداَزاں اِقتصادی، تجارتی، جہادی قوتوں پر گرفت ڈھیلی ہوتے ہوتے نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اہل اِسلام کو اپنی شناخت برقرار رکھنا بھی دُشوار ہو گیا ہے ،وہ اپنے علمی ورثہ سے قطع تعلق کرتے چلے جارہے ہیں بد تہذیبی تہذیب کے نام پر ننگا ناچ رہی ہے اِس اَندھیر نگری میں اللہ کے دین کی شمع اُٹھائے اہل ِحق کی جماعت مسلمانوں کو اپنی متاعِ گم کردہ کے حاصل کرنے کی راہ دِکھا رہی ہے۔ کفار کی سرتوڑ کوشش یہی ہے کہ اہل ِحق کی جماعت کسی طرح پنپنے نہ پائے وہ سیاسی قوت جو اَنبیائے کرام کے صدقے اُن کو حاصل ہوئی تھی جس کی بدولت بارہ سو سال مسلمان دُنیا کی واحد ''سپر پاور '' بنا رہا ''نیو ورلڈ آرڈر '' اُس کی دہلیز پر کھڑا رہا ''عالمگیریت'' اُس کے دربار کی چاکری کرتی رہی اَور نبی علیہ السلام کی ہر سنت زندہ رہی۔ اَب اُن متروکہ سنتوں کو پھر زندہ کرنے کے لیے دینی مدارس آنے والی نسلوں کے لیے اِس احساس