Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2011

اكستان

48 - 64
زیادہ نہیں تو بہت کم بھی نہیں ہوتا لیکن اَصل چیز جو ایک مہمان نواز کو دُوسرے سے ممتاز کرتی ہے وہ مہمان نوازی کا سلیقہ اَور مہمان نوازی کی قدروں اَور آداب پر کاربند رہنے کی توفیق ہے۔ حضرت مہتمم صاحب پرانے زمین دار تھے، شرافت ِنسبی کے بھی حامل تھے کہ وہ صدیقی النسب تھے، وہ خلقتاً حلیم وکریم و شریف تھے،  سخاوت و کرم گستری اُنھیں موروثی طور پر حصّے میں ملی تھی، رکھ رکھاؤ اَور رَوایات وتہذیب کے آدمی تھے، سیرچشمی و کشادہ دِلی اَور فیاضی سے اُن کا خمیر اُٹھا تھا، عالی حوصلگی ہمیشہ اُن کے ہم رکاب رہتی تھی اَور میزبانی کے بنیادی تقاضوں کو پورا کرنے کے اَسباب بھی اللہ نے اُن کے لیے مُہَیَّا کررکھے تھے کہ مادّی وسائل کی بھی کمی نہ تھی (اللہ پاک اپنے فضل ِخاص سے اُن کے پسماندگان کے لیے بھی یہ وسائل اَفزودگی کے ساتھ باقی رکھے) پھر یہ کہ اُنھوں نے اپنے سلف کو میزبانی کے سارے آداب برتتے ہوئے دیکھا اَور سیکھا تھا اِس لیے وہ صحیح معنٰی میں مہمان نواز تھے۔ وہ دسترخوان پر بیٹھے سارے مہمانوں تک دسترخوان کے سارے مشمولات کے  پہنچنے کو یقینی بناتے، ڈھکی ہوئی روٹیوں میں سے گرم گرم روٹیاں ہر ایک کی طرف اپنے ہاتھ سے بڑھاتے، ہر ایک کی پلیٹ میں ہر طرح کے سالن اپنے سے ڈالنے کی کوشش کرتے، مہمانوں کا کھانے کے دوران ''حوصلہ'' بڑھاتے کہ خود بھی آہستہ آہستہ آخرتک اُن کے ساتھ کچھ نہ کچھ لیتے رہتے اَور زبان سے بھی اَور ماکولات لینے کے لیے اُن پر زور ڈالتے۔ پھر یہ کہ ہرطرح کی چیزیں دسترخوان پر وافر مقدار میں ہوتیں جس سے مہمانوں کا ''حوصلہ'' کھانے کے لیے اَز خود مہمیز ہوتا، دسترخوان کا ماحول ایسا تشکیل دیتے کہ کسی مہمان کو کھانے میں تکلف ہوتا نہ شرمندگی ہوتی۔ بہت سے ''مہمان نواز'' دسترخوان پر ساری چیزیں چن کے مہمانوں کو دسترخوان پر بٹھادیتے ہیں اَور کھانے کے لیے ذرا بھی ترغیب و تشویق کا رَویہّ نہیں اَپناتے، جیسے اُن کا اَصلی مقصد کھانوں اَور برتنوں کی نمائش تھی جو ہوچکی، اَب مہمان کچھ لیں یا نہ لیں اُن کی بَلا سے۔
اُن کی مشہور آم کی سالانہ دعوت جس میں اَساتذہ واَعیانِ شہر اَور سرکاری اہلکاروں کی ایک تعداد  بھی شرکت کرتی تھی، ہی اُن کی پہچان نہ تھی بلکہ اُن کی اَصل شناخت اُن کا وہ دسترخوانِ ضیافت تھا جو وقفے وقفے سے اُن کے دارُالعلوم والے کمرے میں اَور تقریباً ہمہ روز اُن کے گھر پر بچھا کرتا تھا۔
مہتمم صاحب طلباء اَور عام وَاردین وزائرین سے جن کی دارُالعلوم میں کثرت رہتی ہے اَور جن  میں عموماً ناخواندہ اَور بے سلیقہ لوگ ہی زیادہ ہوتے ہیں، بڑی شفقت اَور کھلے پن سے ملتے تھے۔ بعض دفعہ
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حرف آغاز 4 1
3 درس حديث 7 1
4 اِسلامی جنگی مہم کے بعد مشکلات جنم نہیں لیتیں : 9 3
5 مفتوحہ علاقوں کی عورتوں کے ساتھ سلوک : 9 3
6 مفتوحہ علاقوں کے لوگ بخوشی اِسلام قبول کرتے رہے کسی پر جبر نہیں کیا گیا : 9 3
7 بادشاہوں کا ظالمانہ روّیہ : 10 3
8 حضرت اَبوبکر کی ہدایات ،ایک خاص دُعا اَور اُس کی وجہ : 11 3
9 خلافت علی منہاج النبوة اَور عام خلافت میں فرق : 12 3
10 دارُالخلافہ کی مدینہ منورہ سے کوفہ منتقلی : 12 3
11 بعد والوں کے لیے حضرت معاویہ کا طرز ممکن العمل ہے : 13 3
12 مسئلہ رجم 15 1
13 اِمام شافعی فرماتے ہیں : 16 12
14 قسط : ١٠ اَنفَاسِ قدسیہ 28 1
16 رُفقائِ سفر کے ساتھ : 28 14
17 قسط : ٢٧ تربیت ِ اَولاد 32 1
18 ( حقوق کا بیان ) 32 17
19 اَولاد کے حقوق میں کوتاہی اَور اُس کا نتیجہ : 32 17
20 اَولاد خبیث اَور بدمعاش کیسے ہوجاتی ہے : 33 17
21 بچوں کے اَخلاق اَورعادتیں کیسے خراب ہوجاتی ہیں : 33 17
22 چوری کی عادت رفتہ رفتہ ہوتی ہے : 34 17
23 آج کل کی تعلیم وتربیت کے برے نتائج : 34 17
24 بدحالی کا تدارک اَور اِصلاح کا طریقہ : 35 17
25 قسط : ٤ حضرت اِمام حسن بن علی رضی اللہ عنہما 36 1
26 حُلیہ مبارک : 36 25
27 اَزدواج کی کثرت : 36 25
28 بیویوں سے برتاؤ : 36 25
29 اَولاد : 37 25
30 ذریعہ معاش : 37 25
31 فضل وکمال : 38 25
32 حدیث : 38 25
33 خطابت : 38 25
34 شاعری : 40 25
35 حکیمانہ اَقوال : 40 25
36 اَخلاق وعادات : 41 25
37 اِستغنا ء وبے نیازی : 41 25
38 وفیات 42 1
39 قسط : ٣ ، آخری 43 1
40 دارُالعلوم کے مردِ دَانا و دَرویش کی رِحلت 43 39
41 نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہوتا ہے : 47 39
42 مولانا کی کارگاہِ سیاست 55 1
43 اَذان کی عظمت و شان مَد کی دَرازی سے ہے 59 1
44 دینی مسائل ( وقف کا بیان ) 62 1
45 وقف کیسے لازم اَور مکمل ہوتا ہے : 62 44
46 وقف کا حکم : 62 44
47 متولی وقف کی معزولی : 62 44
48 اَراضی وقف کو اجارہ طویلہ پر دینا : 63 44
Flag Counter