ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2011 |
اكستان |
|
علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعدآپ نے متعدد خطابت دیے ہیں۔ اُن میں سے ایک نمونہ نقل کیا جا تاہے۔ اِس سے آپ کی خطابت کا پورا اَندازہ ہوگا۔ قال بعد حمد اللّٰہ عزوجل انا واللّٰہ ماثنانا عن اہل الشام شک ولاندم وانما کنا نقاتل اہل الشام بالسلامة والصبر،فسلبت السلامة بالعداوة والصبر بالجزعِ وکنتم فی منتد بکم الی صفین ودینکم امام ونیاکم فاصبحتم الیوم و دنیاکم امام دینکم الا وانا لکم کماکنا ولستم لنا کماکنتم الا وقدأ اصبحتم بین قتیلین قتیل بصفین بتکون لہ وقتیل بالنہروان تطلبون بثارہ فاما الباقی فخاذل واما الباکی فثائر الا وان معاویة دعانا الی امرلیس فیہ عز ولا نصفة فان ارد تم الموت رددناہ علیہ حاکمناہ الی اللّٰہ عزوجل بظباء السیوف وان اردتم الحیاة قبلناہ واخذنا لکم الرضا۔ ''حمد اِلٰہی کے بعد آپ نے یہ تقریر کی کہ ہم کسی شک وشبہ یا شرم وندامت کی وجہ سے شامیوں کے مقابل سے نہیں لوٹ آئے بلکہ اِس کا سبب یہ تھا کہ پہلے ہم شامیوں سے صاف دِلی اَور صبر کے ساتھ جنگ کرتے تھے لیکن اَب وہ حالت باقی نہیں رہی صاف دِلی کی جگہ عداوت نے اَور صبر وثبات کی جگہ بے چینی نے لے لی۔ صفین میں جب تم لوگ ہلائے گئے تھے تو تمہارا دین تمہاری دُنیا پر مقدم تھااَور اَب حالت اِس کے برعکس ہے ہم اَب بھی تمہارے لیے ویسے ہی ہیں جیسے پہلے تھے ۔لیکن تم ہمارے لیے ویسے نہیں رہے جیسے پہلے تھے،ہاں اَب تمہارے سامنے دوقسم کے مقتول ہیں۔ایک صفین کے مقتول جن کے لیے تم رورہے ہو ،دُوسرے نہروان کے مقتول جن کاتم بدلہ لیناچاہتے ہو لیکن رونے والا بدلہ پاگیا اَورباقی ناکام رہے گا ،معاویہ ہمیں ایسے اَمر کی طرف بُلاتے ہیں جوعزت اَور اِنصاف دونوں کے خلاف ہے ۔پس اَب اِس کا فیصلہ تمہاری رائے پر ہے اگر تم موت چاہتے ہو تو ہم اُس کو معاویہ ہی کی طرف لوٹادیں اَور تلواروں کی دھار