ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2011 |
اكستان |
|
آنے جانے والوں کے ذریعے یا بوقت ِضرورت کسی آدمی کو باقاعدہ دارُالعلوم بھیج کر دارُالعلوم کے اَحوال اَور مسائل سے مکمل طور پر واقف رہنے کی کوشش کرتے۔ زندگی کا تجربہ بتاتا ہے کہ زندگی کا کوئی کام صرف محنت اَور سعیِ پیہم سے اُتنا اَنجام پذیر نہیں ہوتا جتنا فکرمندی سے، جس کی وجہ سے وہ کام ذہن پر ہمہ وقت مسلط رہتا ہے۔ حضرت رحمة اللہ علیہ دارُالعلوم کے متعلقہ کاموں کو نہ صرف محنت اَور لگن سے اَنجام دیتے تھے بلکہ اُس کی ساری متعلقہ ذمہ داریاں شب وروز کے سارے لمحات میں اُن کے ذہن پر مسلط رہتیں اَور ہر وقت وہ اُنہی کے متعلق سوچتے رہتے۔اُن کی وفات سے صرف ١٩دِن پہلے کی بات ہے یعنی شنبہ١٣ذی الحجہ ١٤٣١ھ مطابق٢٠ نومبر٢٠١٠ء کی کہ راقم دارُالعلوم کے دوایک اَساتذہ کے ساتھ اُن کی ملاقات کو اُن کے دولت کدے واقع محلہ قاضی واڑہ شہر بجنور پہنچا، حضرت سے ملاقات ہوئی تومصافحہ اَور خبرخیریت معلوم کرنے کے معاً بعد فرمایاکہ دارُالعلوم میں قربانی کے کتنے جانور آئے تھے اَور یہ کہ اِس سلسلے کی کمیٹی ٹھیک سے بن گئی تھی اَور پتہ نہیں صحیح ریٹ پرچمڑے کی فروخت ہوئی کہ نہیں؟ راقم کے ساتھ جواَساتذئہ کرام تھے اُن میں سے بعض کمیٹی کے ممبران میں تھے اُنھوں نے کہا: حضرت چمڑے ماشاء اللہ اچھے ریٹ سے گئے تو وہ مطمئن ہوگئے۔ ہم لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی کہ صحت کے اِس عالم میں کہ وہ گھل کر ہڈیوں کا مجموعہ بن گئے ہیں دارُالعلوم اَور اُس کے مفادات ہی کی اُنھیں لگی ہوئی ہے، اِس حالت میں تو آدمی کو اپنی بھی خبر نہیں ہوتی، ١٠٠سال کا بوڑھا آدمی جو عرصے سے طرح طرح کے اَمراض اَور بڑھاپے کی کمزوریوں اَور اُس کے مختلف الاقسام عوارض کا شکار ہے اُس کو صرف اپنے محبوب اِدارے کی فکر ہے کسی اَور بات کی نہیں؟ ہم لوگوں کو بہت خوشی ہوئی کہ اللہ پاک نے اِس عمر میں بھی اُن کے ذہن اَور حافظے کی کارکردگی کو پوری طرح محفوظ رکھا ہے اَور اُن کا دماغ مکمل طور پر اپنا کام کررہا ہے، ورنہ اِس عمر اَور اِتنے اَمراض کی حالت میں آدمی کا ذہن کلاًّ یا جزء ً ا کام نہیں کرتا۔ یہ اُن کی دینداری اَور تقویٰ شعاری کی برکت تھی اَور اپنے خاندان کے عظیم بزرگوں کی نیکیوں کی جو دارُالعلوم کے دیرینہ خادم اَور سچے بہی خواہ رہے تھے۔ دارُالعلوم میں قربانی کے مسئلے کے بعد حضرت رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں عیدالفطر اَور عیدالاضحی دونوں کی نمازیں نہیں پڑھ سکا اَور یہ کہتے ہوے اُن کی آواز بھرّاگئی اَور وہ آب دیدہ ہوگئے۔ ہم لوگوں نے