ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2011 |
اكستان |
|
حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے حجرۂ نبوی میں دفن ہونے کی اِجازت چاہی، اُنہوں نے خوشی کے ساتھ اِجازت دے دی ۔اِجازت ملنے کے بعد بھی اِحتیاطاً فرمایا کہ میرے مرنے کے بعد دوبارہ اِجازت لینا، ممکن ہے میری زندگی میں مروّت سے اِجازت دے دی ہو اَگر دوبارہ اِجازت مل جائے توروضۂ نبوی ۖ میں دفن کرنا، مجھے خطرہ ہے کہ اِس میں بنی اُمیہ مزاحم ہوں گے اگر مزاحمت کی صورت پیش آئے تواِصرار نہ کرنا اَور بقیع الغرقد کے گورِغریباں میں دفن کردینا۔(اِستیعاب ج ١ ص ١٤٥ ۔ مروج الذہب مسعودی ج ٣ ص ٣٨٠) زہر کھانے کے تیسرے دن ضروری و صیتوں کے بعد بااِختلاف ِ روایت ربیع الاوّل ٤٩ھ یا٥٠ھ میں اِس بوریہ نشین مسند ِ بے نیازی نے اِس دُنیائے دُنی کوخیرباد کہا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ وفات کے وقت ٤٧ یا ٤٨ سال کی عمر تھی۔ جنازہ پر جھگڑا : وفات کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے وصیت کے مطابق دو بارہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اِجازت مانگی، آپ نے پھر فراخ دِلی کے ساتھ اِجازت مرحمت فرمائی ١ لیکن حضرت حسن رضی اللہ عنہ کاخطرہ بالکل صحیح نکلا۔ مروان کو اِس کی خبر ہوئی تو اُس نے کہا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کسی طرح روضۂ نبوی ۖ میں دفن نہیں کیے جا سکتے، اُن لوگوںنے عثمان رضی اللہ عنہ کو تو یہاں دفن نہ ہو نے دیا اَور حسن رضی اللہ عنہ کو دفن کرنا چاہتے ہیں یہ کسی طرح نہیں ہو سکتا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے مقابلہ کرنا چاہا مروان بھی لڑنے پر آمادہ ہو گیا اَور قریب تھاکہ پھر ایک مرتبہ مدینہ کی زمین مسلمانوں کے خون سے لالہ زار بن جائے کہ اِتنے میں مشہور صحابی حضرت اَبو ہریرہ رضی اللہ عنہ پہنچ گئے اَورچِلائے کہ : '' یہ کیا ظلم ہے کہ ابن ِرسول اللہ (ۖ) کو اُس کے نانا کے پہلو میں دفن کرنے سے روکا جاتا ہے۔پھر حسین رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اِس کے لیے کشت وخون سے کیا فائدہ؟ حسن کی وصیت بھول گئے کہ اگر خون ریزی کا خطرہ ہو تو عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔ '' ١ اِس موقع پر بھی حرمِ نبوی ۖ کے دُشمنوں نے ایک روایت مشہور کردی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اِجازت نہیں دی اَور حضرت حسن کے روضۂ نبوی ۖ میں دفن ہونے میںمزاحم ہوئیں۔ مگر یہ روایت بھی اَمیر معاویہ کی شرائط کی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بدنام کر نے کے لیے گھڑی گئی ہے جس کی کوئی اَصلیت نہیں۔