ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2011 |
اكستان |
|
سے کچھ زیادہ تھی۔ آپ کی بیعت ِ خلافت کی تاریخ تو متعین ہے مگر دست برداری کی تاریخ میں بڑا اِختلاف ہے۔ بعض ربیع الاوّل ٤١ ھ بعض ربیع الثانی اَور بعض جمادی الاوّل بتاتے ہیں۔ اِسی اعتبار سے مدت ِ خلافت میں بھی اِختلاف ہو گیا ہے۔ معاویہ اَور قیس بن سعد میں صلح : حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی دستبرداری سے آپ کے خاص حامیوں اَور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فدائیوں کو بڑا صدمہ پہنچا، اِس میں شک نہیں کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے کچھ آدمیوں نے جن پر شامیوں کا مخفی جادُو چل گیاتھا کمزوری دِکھائی تھی لیکن اِن کے علاوہ ہزاروں فدایانِ علی اُس وقت بھی سربکف جان دینے کے لیے آمادہ تھے ۔خود قیس بن سعد رضی اللہ عنہ جو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے مقدمة الجیش کے کمان دار تھے، حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے حکم پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقابلہ چھوڑ کر مدائن تو چلے آئے تھے لیکن دستبرداری کے بعد کسی طرح اَمیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت تسلیم کرنے پر تیار نہ ہوتے تھے اَور اُن سے مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ تن آمادہ تھے اَور اپنی ہم خیال جماعت سے جنگ کے لیے بیعت بھی لے لی تھی لیکن آخر میں اَمیر معاویہ نے اُن کے تمام مطالبات مان کر صلح کر لی۔ (ابن اثیر ج ٣ ص ٣٤٣) وفات : دستبرداری کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ آخری لمحہ ٔحیات تک اپنے جدِ بزرگوار کے جوار میں خاموشی و سکون کی زندگی بسر کرتے رہے ۔ ٥٠ھ میں آپ کی بیوی جعدہ بنت ِاَشعث نے کسی وجہ سے زہر دے دیا (زہر کے متعلق عام طورپر یہ غلط فہمی پھیلی ہوئی ہے کہ اَمیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اِشارہ سے دیا گیا تھا جو سراسر غلط ہے اِس پر تفصیلی بحث اِنشاء اللہ اَمیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حالات میں آئے گی) جوسمِ قاتل تھا ، قلب و جگر کے ٹکڑے کٹ کٹ کر گرنے لگے۔ جب حالت زیادہ نازک ہوئی اَور زندگی سے مایوس ہوگئے تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بُلا کر اُن سے واقعہ بیان کیا، اُنہوں نے زہر دینے والے کا نام پوچھا۔ فرمایا نام پوچھ کر کیا کرو گے؟ عرض کیا قتل کروں گا۔ فرمایا اگر میرا خیال صحیح ہے تو خدا بہتر بدلہ لینے والا ہے اَور اگر غلط ہے تو میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کوئی ناکردہ گناہ پکڑا جائے اَور زہر دینے والے کا نام بتانے سے اِنکار کردیا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے نانا کے پہلو میں دفن ہونے کی بڑی تمناتھی اِس لیے اپنی محترم نانی